سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
30. باب فِي ادِّعَاءِ وَلَدِ الزِّنَا
باب: ولد الزنا کے مدعی ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2265
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ. ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ وَهُوَ أَشْبَعُ،عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ، فَقَضَى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَمْ يَمْلِكْهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ بِهِ وَلَا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ كَانَ أَوْ أَمَةٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعویٰ کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کے ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے (اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہو گا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے (اپنی زندگی میں) اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الفرائض 14 (2746)، (تحفة الأشراف: 8712)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 181، 219)، سنن الدارمی/الفرائض 45 (3154) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2746  
´بچے کا دعویٰ کرنا اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بچے کا نسب اس کے والد کے مرنے کے بعد اس سے ملایا جائے مثلاً اس کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں (کہ یہ ہمارے مورث کا بچہ ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ فیصلہ فرمایا: اگر وہ بچہ لونڈی کے پیٹ سے ہو لیکن وہ لونڈی اس کے والد کی ملکیت رہی ہو جس دن اس نے اس سے جماع کیا تھا تو ایسا بچہ یقیناً اپنے والد سے مل جائے گا، لیکن اس کو اس میراث میں سے حصہ نہ ملے گا جو اسلام کے زمانے سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں اس کے والد کے دوسرے وارثوں نے تقسیم کر لی ہو، ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2746]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جاہلیت میں زنا عام تھا۔
لونڈیوں سے زنا کوئی عیب شمار نہیں کیا جاتا تھا۔
آزاد عورت سے زنا معیوب تو سمجھا جاتا تھا، تاہم اس قسم کے تعلقات بھی عام تھے۔

(2)
لونڈی سے جس طرح آقا اولاد حاصل کرتا تھا، آقا کے مرنے کے بعد اس کا کوئی قریبی رشتے دار (بھائی وغیرہ)
اس سے اولاد حاصل کرتا تھا، اسی طرح کوئی اجنبی بھی اس سے ناجائز تعلق قائم کرلیتا تھا، اور پھر اس کی اولاد کے بارے میں دعوی کردیتا کہ یہ میری اولاد ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہونے والوں میں اس قسم کے جھگڑے سامنے آئے، مثلاً:
ایک شخص نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ناجائز تعلقات قائم کیے اور اس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوئی۔
اسلام لانے کے بعد اس کی وراثت کا مسئلہ ہوا۔

(3)
اس قسم کے واقعات میں پیدا ہونے والے بچے کے دو دعویدار پیدا ہو جاتے تھے۔
ایک عورت کا قانونی شوہر یا اس لونڈی کا اصل مالک، دوسرا وہ مرد جس نے اس آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کیا ہوتا۔
دونوں اس کے باپ ہونے کے مدعی ہوتے تھے۔
یا ان دونوں کے بیٹے اس بچے کے بھائی ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔
جاہلیت میں اس کا فیصلہ قیافہ وغیرہ سے کیا جاتا تھا۔

(4)
نبی اکرمﷺ نے یہ قانون بیان فرمایا:

(ا)
اگر یہ بچہ جائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یعنی لونڈی کا بچہ اس کے مالک سے ہے، یا آزاد عورت کا بچہ اس کے خاوند سے ہے تو وہ اپنے باپ کا وارث ہے کیونکہ اس کا نسب شرعاً معتبر ہے۔

(ب)
یہ بچہ جس کا کہلاتا ہے (عورت کا خاوند یا لونڈی کا مالک)
، اگر اس نے زندگی میں یہ کہہ دیا ہو کہ یہ بچہ میرا نہیں تو اسے اس کا بیٹا نہیں مانا جائے گا، اور اسے وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

(ج)
اگر یہ بچہ ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یعنی مرنے والے نے کسی آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کیا تھا، اب اگر یہ شخص زندگی میں اعتراف بھی کرچکا ہو کہ یہ لڑکا مجھ سے پیدا ہوا ہے، اس لیے میرا بیٹا ہے، تب بھی اسے اس کا بیٹا تسلیم نہیں کیا جائے گا، نہ اسے وراثت میں حصہ ملے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2746