سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
31. باب فِي الْقَافَةِ
باب: قیافہ جاننے والوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2268
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَسَارِيرُ وَجْهِهِ، لَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَسَارِيرُ وَجْهِهِ هُوَ تَدْلِيسٌ مِنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ، إِنَّمَا سَمِعَ الْأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِ الْزُهْرِيِّ. قَالَ: وَالْأَسَارِيرُ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَغَيْرِهِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ شَدِيدَ السَّوَادِ مِثْلَ الْقَارِ، وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ مِثْلَ الْقُطْنِ.
اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے ۱؎ اور زید رضی اللہ عنہ روئی کی طرح سفید۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16581) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ ان کی والدہ جن کا نام برکۃ تھا اور کنیت ام ایمن تھی بہت کالی اور حبشی خاتون تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2268  
´قیافہ جاننے والوں کا بیان۔`
اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2268]
فوائد ومسائل:
حضرت زیدبن حارثہ رجی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام) تھےاور شرع ایام اسلام میں آپ کے متنبہی (لےپالک) بھی کہلاتے رہتے تھے۔
ان صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکو انتہائی محبوب تھے۔
ان کا لقب ہی حب رسول الله (رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے) پڑگیا تھا۔
باپ بیٹے میں رنگ کا فرق تھا کیونکہ اسامہ ماں ام ایمن تھی جو حبشن تھیں۔
انہیں رنگ پر ان کا رنگ آیا تو کئی جاہل ان کے نسب پر طعن کرتے تھے جوکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔
مجزز مدلحجی قبیلہ بنو اسد کا معروف قیافہ شناس تھا اور مشرکین اس کی بات قبول کرتے تھے۔
کہیں گزرتے ہوئے اس نے ان دونوں باپ بیٹے کو دیکھ لیا جبکہ ان کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھے اور پاؤں ننگے تھے۔
تو اس نے غالباً اپنے علمی رعب کا اظہار کرنےکے لیے یہ جملہ کہ دیا کہ یہ پاؤں باپ بیٹے کے ہیں۔
یہ جملہ مسلمانوں کے لیے حق کی تائید وتقویت اور شبہات کے ازالے کا باعث ثابت ہوا۔
اس سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ کفار کا معتقد ان کے اپنے طعن کی تردید کر رہا ہے۔
۔
۔
۔
اس واقعہ میں فقہی استدلال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی بچے کے بارے میں کئی لوگ مدعی ہوں یا کسی عورت سے کسی شبہے کی وجہ سے دو تین افراد نے مباشرت کرلی ہو اور بچے کے بارے میں واضح نہ ہوکہ کس کا ہے؟ تو کسی ماہر اور عادل قیافہ شناس کے رائے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ علم سراسر باطل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے قول پر خوشی کا اظہار نہ فرماتے۔
گزشتہ حدیث لعان (حدیث:2252) میں رسول اللہﷺ کا بیان گزرا ہے کہ بچہ اگر اس اس طرح کا ہوا تو فلاں کا ہوگا۔
اس میں علم قیافہ کی اصلیت کی دلیل ہے۔
نیز حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہ میں آتا ہے کہا گر عورت کو احتلام نہیں ہوتا تو بچے کی اس کے ساتھ مشابہت کیونکر ہوتی ہے؟ (صحیح بخاری، العلم، حدیث:130 و صحیح مسلم، الحیض، حدیث:313)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2268