سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
9. باب إِذَا رُؤِيَ الْهِلاَلُ فِي بَلَدٍ قَبْلَ الآخَرِينَ بِلَيْلَةٍ
باب: اگر کسی شہر میں دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چاند نظر آ جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2332
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ،" أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ ابْنَةَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، فَاسْتَهَلَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرَ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ قُلْتُ: رَأَيْتُهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ وَرَآهُ النَّاسُ، قَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُهُ حَتَّى نُكْمِلَ الثَّلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَفَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیکن ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم چاند نظر آنے تک روزہ رکھتے رہیں گے، یا تیس روزے پورے کریں گے، تو میں نے کہا کہ کیا معاویہ کی رؤیت اور ان کا روزہ کافی نہیں ہے؟ کہنے لگے: نہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصیام 5 (1087)، سنن الترمذی/الصیام 9 (693)، سنن النسائی/الصیام 5 (2113)، (تحفة الأشراف: 6357)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/306) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2332  
´اگر کسی شہر میں دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چاند نظر آ جائے تو کیا کرے؟`
کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2332]
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ ہر علاقے والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے۔
امام شافعی رحمة اللہ علیہ اس میں مزید یوں فرماتے ہیں کہ اگر مختلف علاقوں کا مطلع ایک ہو تو ایک دوسرے کی رؤیت ان کے لیے معتبر ہو گی ورنہ نہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2332