سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
13. باب شَهَادَةِ رَجُلَيْنِ عَلَى رُؤْيَةِ هِلاَلِ شَوَّالٍ
باب: شوال کے چاند کی رویت کے لیے دو آدمیوں کی گواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2339
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ الْمُقْرِئُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَقَدِمَ أَعْرَابِيَّانِ فَشَهِدَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّهِ لَأَهَلَّا الْهِلَالَ أَمْسِ عَشِيَّةً، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ يُفْطِرُوا". زَادَ خَلَفٌ فِي حَدِيثِهِ:" وَأَنْ يَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں رمضان کے آخری دن لوگوں میں (چاند کی رویت پر) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15574)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/314، 5/362) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 693  
´ہر شہر والوں کے لیے انہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔`
کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 693]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رؤیت ضروری ہے،
محض فلکی حساب کافی نہیں،
رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ ((صُوْمُوْا)) اور ((اَفْطِرُوْا)) کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو،
جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں،
اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے،
اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 693   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2339  
´شوال کے چاند کی رویت کے لیے دو آدمیوں کی گواہی کا بیان۔`
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں رمضان کے آخری دن لوگوں میں (چاند کی رویت پر) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2339]
فوائد ومسائل:
رمضان المبارک کا چاند ہو جانے کا یقین یا تو شعبان کے تیس دن پورے ہو جانے پر ہے یا لوگوں کی گواہی پر کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے، خواہ کوئی ایک عادل مسلمان ہی ہے، جیسے کہ اگلے باب کی احادیث میں آ رہا ہے۔
اسی طرح انتہائے رمضان کے موقع پر بھی۔
تاہم عام فقہاء عادل مسلمانوں کی رؤیت کو ضروری سمجھتے ہیں جبکہ ابوثور، ابوبکر بن منذر، اہل ظاہر اور امام حسن کی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سے ایک روایت میں ایک مسلمان کی رؤیت کو بھی حجت سمجھا گیا ہے۔
علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ کی ترجیح بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ روزے چھوڑنے کے موقع پر دو آدمیوں کی گواہی کسی معیاری دلیل سے ثابت نہیں۔
مالی معاملات ہی ایسے ہیں جہاں دو گواہ لازم ہوتے ہیں۔
مگر روزوں کے متعلق صریح حکم ہے کہ چاند دیکھ کر رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
اور عبادت میں خبر واحد معتبر ہوتی ہے۔
(فقه السنة للسيد سابق‘ بم يثبت الشهر‘ ونيل الأوطار‘ باب ما يثبت به الصوم والفطر من الشهور) نیز عید کا چاند ہونے کی خبر اگر دیر سے ملے اور عید کے لیے جمع ہونا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز پڑھ لی جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2339