سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
17. باب وَقْتِ السُّحُورِ
باب: سحری کھانے کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2347
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ التَّيْمِيِّ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ، أَوْ قَالَ: يُنَادِي، لِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ وَيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ، وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا". قَالَ مُسَدَّدٌ: وَجَمَعَ يَحْيَى كَفَّيْهِ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا، وَمَدَّ يَحْيَى بِأُصْبُعَيْهِ السَّبَّابَتَيْنِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے ہرگز نہ روکے، کیونکہ وہ اذان یا ندا دیتے ہیں تاکہ تم میں قیام کرنے (تہجد پڑھنے) والا تہجد پڑھنا بند کر دے، اور سونے والا جاگ جائے، فجر کا وقت اس طرح نہیں ہے۔ مسدد کہتے ہیں: راوی یحییٰ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کر کے اور دونوں شہادت کی انگلیاں دراز کر کے اشارے سے سمجھایا یعنی اوپر کو چڑھنے والی روشنی صبح صادق نہیں بلکہ صبح کاذب ہے، یہاں تک اس طرح ہو جائے (یعنی روشنی لمبائی میں پھیل جائے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 13 (621)، الطلاق 24 (5298)، أخبارالآحاد 1 (7247)، صحیح مسلم/الصوم 8 (1093)، سنن النسائی/الأذان 11 (642)، سنن ابن ماجہ/الصوم 23 (1696) (تحفة الأشراف: 9375)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/386، 392، 435) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 642  
´نماز کا وقت ہوئے بغیر اذان دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں تاکہ سونے والوں کو جگا دیں، اور تہجد پڑھنے والوں کو (سحری کھانے کے لیے) گھر لوٹا دیں، اور وہ اس طرح نہیں کرتے یعنی صبح ہونے پر اذان نہیں دیتے ہیں بلکہ پہلے ہی دیتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 642]
642 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر طلوع ہونے سے قبل اذان کہتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ فجر کاذب کا وقت ہوتا تھا جیسا کہ اس حدیث میں اشارہ ہے۔ یہ اذان دراصل صبح کی نماز کی تیاری کے لیے ہوتی تھی تاکہ لوگ اپنی مصروفیات (قضائے حاجت، غسل وغیرہ) سے دوسری اذان تک فارغ ہو جائیں، دوسری اذان کے بعد مسجد میں پہنچ جائیں اور نماز اول وقت پر پڑھی جا سکے۔
➋ پہلی اذان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو تہجد وغیرہ پڑھ رہے ہیں، وہ نماز کو مختصر کر دیں اور وتر وغیرہ پڑھ لیں کیونکہ فجر کا وقت ہونے والا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 642   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1696  
´سحری دیر سے کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا (سحری کھانے کے لیے) جاگ جائے، اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے) والا اپنے گھر چلا جائے، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے، بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض (چوڑان) میں ظاہر ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1696]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
فجر کے وقت دو اذانیں مسنون ہیں ایک اذا ن صبح صا دق سے پہلے دی جا ئے جیسے عرف عام میں سحری کی اذ ان کہا جا تا ہے اور دوسری اذان صبح صادق ہونے پر نما ز فجر کے لئے دی جا ئے
(2)
بہتر ہے کہ دونو ں اذانو ں کے لئے دو الگ الگ مئوذن مقرر کیے جا ئیں تا کہ لو گو ں کو آواز سن کر معلو م ہو جا ئے کہ اب کون سی اذان ہو رہی ہے مسجد نبوی میں دوسری اذان یعنی نما ز فجر کی اذان کے لئے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقرر تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، باب أذان الأعمیٰ إذا کان له من یخبرہ، حدیث: 617)

(3)
پہلی اذان کے یہ فوائد ذکر کیے گے ہیں کہ جو شخص سو رہا ہے وہ جا گ اٹھے اگر سحری کھانی ہو تو سحری کھا لے ورنہ نماز فجر کی تیاری کرے اور جو شخص تہجد پڑھ رہا ہے وہ اس سے فا رغ ہو کر مذکورہ کامو ں کے لئے تیا ری کرے اور دیگر لو گ قضا ئے حا جت وغیرہ فارغ ہو کر وضو کر کے بر وقت مسجد میں پہنچ جائیں تا کہ نماز با جماعت میں شریک ہو سکیں۔

(4)
عہد رسا لت میں دو اذانوں کا یہ سلسلہ مستقل معمول تھا صرف رمضان ہی کے مہینے میں ایسا نہیں ہو تا جیسا کے عا م طو ر پر سمجھا جا تا ہے اس لئے صرف رمضا ن میں اس کا اہتمام کر نا صحیح نہیں ہے
(5)
نبی ﷺ نے صبح کاذب اور صبح صادق کا فرق اشارے سے واضح فر مایا پہلے اس طرح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کا رخ اوپر کی طرف زیا دہ ہو اسے صبح کاذب کہتے ہیں دوسرے اس طرح کا مطلب یہ ہے کہ روشنی اطراف میں پھیلے یہ صبح صادق ہو تی ہے۔

(6)
با ت سمجھانے کے لئے اشارہ کرنا درست ہے تاہم خطبے میں دونوں ہا تھ ہلانا اور نعرے وغیرہ لگوانا مناسب نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1696