سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
32. باب الصَّائِمِ يَسْتَقِيءُ عَامِدًا
باب: روزہ دار قصداً قے کرے اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2381
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ، عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، حَدَّثَنِي مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ. حدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَاءَ فَأَفْطَرَ"، فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ. حدَّثَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاءَ فَأَفْطَرَ. قَالَ: صَدَقَ، وَأَنَا صَبَبْتُ لَهُ وَضُوءَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
معدان بن طلحہ کا بیان ہے کہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے ہوئی تو آپ نے روزہ توڑ ڈالا، اس کے بعد دمشق کی مسجد میں میری ملاقات ثوبان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے کہا کہ ابوالدرداء نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے ہو گئی تو آپ نے روزہ توڑ دیا اس پر ثوبان نے کہا: ابوالدرداء نے سچ کہا اور میں نے ہی (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی ڈالا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطھارة 64 (87)، سنن النسائی/ الکبری/ الصوم (3120)، (تحفة الأشراف: 10964)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/443، 449)، سنن الدارمی/الصوم 24 (1769) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 87  
´قے اور نکسیر سے وضو کا بیان۔`
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قے کی تو روزہ توڑ دیا اور وضو کیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان رضی الله عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو الدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم پر پانی ڈالا تھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 87]
اردو حاشہ:
۔

1؎:
ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے،
لیکن اس حدیث سے استدلال دو باتوں پر موقوف ہے:
ایک یہ کہ:
حدیث میں لفظ یوں ہو ((قَاءَ فَتَوَضَّأَ)) قیٔ کی تو وضو کیا جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے،
زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں ((قَاءَ فَأَفطَرَ)) قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا ہے ((فَأَفطَرَ)) کے بعد بھی ((فَتَوَضَّأَ)) کا لفظ نہیں ہے،
یا اسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے،
یعنی ((قَاءَ فَأَفطَرَ فَتَوَضَّأَ)) یعنی قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا،
اور اس کے بعد وضو کیا اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا،
کیوں کہ ایسا ہوتا ہے کہ قیٔ کے بعد آدمی کمزور ہوجاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے،
اور نظافت کے طور پر وضو کرلیتا ہے،
اور رسو ل اللہ ﷺ تو اور زیادہ نظافت پسند تھے،
نیز یہ آپ ﷺ کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر ((قَاءَ فَتَوَضَّأَ)) کا لفظ ہی محفوظ ہوتو ((فَتَوَضَّأَ)) کی فاء سبب کے لیے ہو،
یعنی یہ ہوا کہ قیٔ کی اس لیے وضو کیا اور یہ بات متعین نہیں ہے،
بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہوسکتی ہے،
یعنی یہ ہوا کہ قیٔ کی اور اس کے بعد وضو کیا۔

2؎:
ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آکر لگا اور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی نماز جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اور سجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس نماز کا علم نبی اکرم ﷺ کو یقینا رہا ہوگا کیونکہ اس کی یہ نماز بحالت پہرہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے اسے دیا تھا،
اس کے باوجود آپ نے اسے وضو کرنے اور نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2381  
´روزہ دار قصداً قے کرے اس کے حکم کا بیان۔`
معدان بن طلحہ کا بیان ہے کہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے ہوئی تو آپ نے روزہ توڑ ڈالا، اس کے بعد دمشق کی مسجد میں میری ملاقات ثوبان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے کہا کہ ابوالدرداء نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے ہو گئی تو آپ نے روزہ توڑ دیا اس پر ثوبان نے کہا: ابوالدرداء نے سچ کہا اور میں نے ہی (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی ڈالا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2381]
فوائد ومسائل:
عمدا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا لازم آتی ہے، بخلاف اس کے کہ ازخود قے آئے۔
خود بخود قے آنے سے نہ روزہ ٹوٹتا ہے، اور نہ قضا لازم آتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2381