سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
41. باب فِيمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ
باب: جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2401
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" إِذَا مَرِضَ الرَّجُلُ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ يَصُمْ أُطْعِمَ عَنْهُ وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضَى عَنْهُ وَلِيُّهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب آدمی رمضان میں بیمار ہو جائے پھر مر جائے اور روزے نہ رکھ سکے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے گا اور اس پر قضاء نہیں ہو گی اور اگر اس نے نذر مانی تھی تو اس کا ولی اس کی جانب سے پورا کرے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2401  
´جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب آدمی رمضان میں بیمار ہو جائے پھر مر جائے اور روزے نہ رکھ سکے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے گا اور اس پر قضاء نہیں ہو گی اور اگر اس نے نذر مانی تھی تو اس کا ولی اس کی جانب سے پورا کرے گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2401]
فوائد ومسائل:
(1) عام اصحاب الحدیث اس بات کے قائل ہیں کہ میت پر روزے باقی ہوں تو اس کا ولی روزے رکھے۔

(2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ فرائض میں کوئی کسی کا نائب نہیں ہو سکتا۔
مریض نے اگر عمدا تقصیر نہیں کی اور وہ فوت ہو گیا ہو تو ولی پر کچھ لازم نہیں صرف کھانا کھلا دے۔
لیکن نذر کا معاملہ اس لیے سخت ہے کہ اسے انسان نے از خود اپنے اوپر لازم کیا ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسے اللہ کے قرض سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2401