سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
---.
باب: تاجر روزہ چھوڑ سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2405
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ بَعْضُنَا وَأَفْطَرَ بَعْضُنَا." فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رمضان میں سفر کیا تو ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا تو نہ تو روزہ توڑنے والوں نے، روزہ رکھنے والوں پر عیب لگایا، اور نہ روزہ رکھنے والوں نے روزہ توڑنے والوں پر عیب لگایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 37 (1947)، صحیح مسلم/الصیام 15 (1118)، (تحفة الأشراف: 660)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام 7 (23) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 249  
´سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے`
«. . . عن انس بن مالك قال: سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان فلم يعب الصائم على المفطر، ولا المفطر على الصائم . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو ہم میں سے روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے والے کو برا نہیں سمجھتا تھا اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے پر کوئی عیب نہیں لگاتا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 249]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1947، من حديث مالك به ورواه مسلم 99/118، من حديث حميد الطّويل به وصرّح بالسماع عنده]

تفقه:
➊ سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے۔
● اگر رمضان کے روزے افطار کئے تو بعد میں اُن کی قضا میں روزے رکھنا ہوں گے۔
● اگر سفر میں گرمی زیادہ ہو اور سخت مشقت ہو تو افطار کرنا افضل ہے۔
➋ نیز دیکھئے: [ح 465]
➌ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ [موطأ امام مالك 1/295 ح663 وسنده صحيح]، جبکہ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ سفر میں روزہ رکھتے تھے۔ [ايضاً ح664 وسنده صحيح]
➍ اگر دو کاموں کا ثبوت شریعت میں ہو تو ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔
➎ کتاب و سنت کے خلاف بات پر رد کرنا بالکل صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 147