سنن ابي داود
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
50. باب النَّهْىِ أَنْ يُخَصَّ يَوْمُ الْجُمُعَةِ بِصَوْمٍ
باب: جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 2420
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَصُمْ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ بِيَوْمٍ أَوْ بَعْدَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی جمعہ کو روزہ نہ رکھے سوائے اس کے کہ ایک دن پہلے یا بعد کو ملا کر رکھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصیام 24 (1144)، سنن الترمذی/الصوم 42 (743)، سنن ابن ماجہ/الصیام 37 (1723)، (تحفة الأشراف: 12503)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 63(1985)، مسند احمد (2/458) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1723  
´جمعہ کے دن کا روزہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، الا یہ کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں رکھا جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1723]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جمعے کے دن مسلمانوں کی ہفت روزہ عید ہے اس لئے اس دن کا اکیلا روزہ رکھنا ایک لحاظ سے عید کے دن روزہ رکھنے سے مشابہ ہو جاتا ہے
(2)
جمرات کا روزہ رکھنا مسنون ہے جیسے کہ حدیث 1740، 1739 میں آ رہا ہے اس کے سا تھ ملا کر جمعے کا روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے
(3)
اسی طر ح اکیلے ہفتے کے دن کا روزہ بھی ممنوع ہے- دیکھیے: حدیث 1726، البتہ جمعے اور ہفتے کے دن کو ملا کر روزہ رکھا جائے تو جا ئز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1723   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 561  
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوسری راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کرنے کے لیے مخصوص نہ کرو اور نہ ہی دوسرے دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے مختص کرو سوائے اس کے کہ جمعہ کا دن ایسے دن آ جائے کہ جس دن تم میں سے کوئی ایک روزہ رکھتا ہو۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 561]
561 فوائد و مسائل:
«لَاتَخُصُّو يَوْمَ الْجُمَعَةِ» یعنی صرف جمعے کے دن کو روزے کے لیے مختص نہ کرو، اس لیے کہ جمعے کے دن عید ہے اور عید کے دن روزہ نہیں ہوتا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے مگر جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے، کیونکہ ترمذی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حسن سند والی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم جمعے کا روزہ چھوڑتے تھے۔ [جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء فى صوم يوم الجمعة، حديث: 742]
مگر اس میں احتمال ہے کہ شاید اس کے ساتھ آپ ایک دن پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھتے ہوں گے۔
➋ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاریب جمعے کو عید کا دن فرمایا ہے مگر عید اور جمعے میں اتنا فرق ضرور ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا بالکل ناجائز ہے، کسی طرح بھی جائز نہیں حتیٰ کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد والے دن میں روزہ رکھنے سے بھی جائز نہیں ہوتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے جبکہ جمعہ میں یہ صورت بالاتفاق جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں آ رہا ہے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 561   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 743  
´خاص کر صرف جمعہ کو روزہ رکھنے کی کراہیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 743]
اردو حاشہ:
1؎:
اس ممانعت کی وجہ کیا ہے،
اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں،
سب سے صحیح وجہ اس کا یوم عید ہونا ہے،
اس کی صراحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ((يَوْمُ الجُمُعَةِ يَوْمُ عِيدٍ،
فَلاَ تَجْعَلُوا يَوْمَ عِيدِكم يَوْمَ صِيَامِكُم إلاَّ أَنْ تَصُومُوا قَبلَهُ أَوْ بَعْدَه)
)
 جمعہ کا دن عید کا دن ہے،
اس لیے اپنے عید والے دن روزہ نہ رکھا کرو،
إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل (جمعرات کا بھی) روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد (سنیچرکے دن) کا بھی۔
اور ابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ((مَنْ كَانَ مِنْكُم مُتَطَوِّعًا منَ الشهرِ أيامًا،
فليَكُنْ فِي صَوْمِه يَوْمُ الخَميسِ،
 وَلَا يَصُمْ يَومََ الْجُمُعةِ،
 فإنَّه يومُ طَعَامٍ وَشَرَابٍ)
)
 تم میں سے جو کوئی کسی مہینے کے نفلی روزے رکھ رہا ہو،
وہ جمعرات کے دن کا روزہ رکھے،
جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے،
اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 743   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2420  
´جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی جمعہ کو روزہ نہ رکھے سوائے اس کے کہ ایک دن پہلے یا بعد کو ملا کر رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2420]
فوائد ومسائل:
روزے کے لیے صرف جمعہ کے دن کو خاص کر لینا یا رات کے قیام و نوافل کے لیے جمعہ کی رات کو خاص اہتمام کرنا جائز نہیں۔
اس منع کی علت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
سوائے اس کے کہ جمعہ کے دن کو عید کا دن کہا گیا ہے اور یہ خاص ذکر و عبادت کا دن ہے۔
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے فتح الباری میں اور پھر علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نے نیل الاوطار (4/281) میں ان علل کا ذکر کیا ہے اور اشکالات بھی وارد کیے ہیں۔
کچھ لوگ جمعہ کی رات کو صلاة الرغائب پڑھتے ہیں جو صوفیوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔
بعض اوقات جمعرات اور جمعہ یا ان راتوں کو درس و تبلیغ کا اہتمام کیا جاتا ہے تو اس میں ان شاءاللہ کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ مجالس معروف عبادت نہیں۔
یہ اعمال انتظام و سہولت کے پیش نظر ہوتے ہیں، جمعے کی خصوصیت سے نہیں۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2420