صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
42. بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا:
باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناء کا بیان۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ {125} وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ {126} وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ {127} رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ {128} سورة البقرة آية 125-128.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور کر دیا اس کو امن کی جگہ اور (حکم دیا ہم نے) کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں پاک کر دیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے۔ اے اللہ! کر دے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاؤں گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور جب ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی بنیاد اٹھا رہے تھے (تو وہ یوں دعا کر رہے تھے) «ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم * ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا أمة مسلمة لك وأرنا مناسكنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم‏» اے ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری (دعاؤں کو) سننے والا اور (ہماری نیتوں کا) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرما کہ تو بہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔
حدیث نمبر: 1582
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا بُنِيَتِ الْكَعْبَةُ ذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبَّاسٌ يَنْقُلَانِ الْحِجَارَةَ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلْ إِزَارَكَ عَلَى رَقَبَتِكَ، فَخَرَّ إِلَى الْأَرْضِ وَطَمَحَتْ عَيْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَرِنِي إِزَارِي، فَشَدَّهُ عَلَيْهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ (زمانہ جاہلیت میں) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ بھی پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنا تہبند اتار کر کاندھے پر ڈال لو (تاکہ پتھر اٹھانے میں تکلیف نہ ہو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بیہوش ہو کر آپ زمین پر گر پڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔ آپ کہنے لگے مجھے میرا تہبند دے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 364  
´باب: (بلا ضرورت) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں (ہو یا اور کسی حال میں)۔`
«. . . حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الْحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ عَمُّهُ: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الْحِجَارَةِ، قَالَ: فَحَلَّهُ، فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " . . . .»
. . . ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نبوت سے پہلے) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھے پر رکھ لیتے (تاکہ تم پر آسانی ہو جائے) جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّعَرِّي فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا: 364]

تخريج الحديث:
[195۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 8 باب كراهية التعري فى الصلاة وغيرها 364، مسلم 340، ابن حبان 1603]
لغوی توضیح:
«فَحَلَّهُ» آپ نے اسے اتار دیا۔
«مَغْشِيًّا» جسے غشی آ جائے۔
«عُرْيَانًا» ننگا۔
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں بھی اہل جاہلیت کی بری عادتوں سے بچا کر رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ستر پوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حیات ہے۔ آپ نے اس کا حکم بھی دیا ہے، فرمایا کہ اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے اپنے ستر کی حفاظت کرو۔ [حسن: المشكاة 3117، مسند أحمد 3/5 4، أبوداود 4017، ترمذي 2769]
یعنی انسان صرف اپنی بیوی اور لونڈی کے سامنے ستر ظاہر کر سکتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 195   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1582  
1582. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی گئی تو نبی کریم ﷺ اور حضرت عباس ؓ پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ اپنا تہبند اُتار کرکندھے پر رکھ لیں۔ جب آپ نے ایسا کیا تو بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے اور آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ آپ نےفرمایا: میراتہبند مجھے دے دو۔ اس کے بعد آپ نے اپنا تہبند اپنے اوپر باندھ لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1582]
حدیث حاشیہ:
اس زمانہ میں محنت مزدوری کے وقت ننگے ہونے میں عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
لیکن چونکہ یہ امر مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اللہ نے اپنے حبیب کے لئے اس وقت بھی یہ گوارہ نہ کیا گو اس وقت تک آپ کو پیغمبری نہیں ملی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1582   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1582  
1582. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی گئی تو نبی کریم ﷺ اور حضرت عباس ؓ پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ اپنا تہبند اُتار کرکندھے پر رکھ لیں۔ جب آپ نے ایسا کیا تو بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے اور آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ آپ نےفرمایا: میراتہبند مجھے دے دو۔ اس کے بعد آپ نے اپنا تہبند اپنے اوپر باندھ لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1582]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں تعمیر کعبہ کا ذکر ہے۔
اس وقت آٹھویں مرتبہ قریش نے اسے تعمیر کیا تھا۔
اس سے مکہ مکرمہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے پتھر اپنے کندھوں پر اٹھائے تھے۔
اس وقت آپ کی عمر پینتیس برس تھی۔
اس وقت محنت و مزدوری کے وقت ننگے ہونے کو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے آپ نے اپنی چادر اتار کر کندھے پر رکھ لی لیکن اس وقت بھی ایسا کام مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب ﷺ کے لیے یہ گوارا نہ ہوا۔
اس کے بعد کبھی آپ کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔
(2)
واضح رہے کہ یہ واقعہ زمانہ نبوت سے پہلے کا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (باب كراهية التعري في الصلاة)
نماز میں برہنہ رہنے کی ممانعت (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1582