سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
2. باب فِي الْهِجْرَةِ هَلِ انْقَطَعَتْ
باب: کیا ہجرت ختم ہو گئی؟
حدیث نمبر: 2481
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو وَعِنْدَهُ الْقَوْمُ حَتَّى جَلَسَ عِنْدَهُ، فَقَالَ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 4 (10)، (تحفة الأشراف: 8834)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 9 (40)، مسند احمد (2/160، 163، 192، 193، 205، 212، 224)، سنن الدارمی/الرقاق 8 (2785) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 10  
´ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 10]

تشریح:
امیر المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگر حاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں، نہ اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔
«جراحات السنان لها التيام ٭ ولايلتام ماجرح اللسان»
یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھر سکتے۔

«من سلم المسلمون» کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مسلمانوں کو زبان یا ہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں «من امنه الناس» کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ و اخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی «سلم» ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بد داخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مار پیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ تو عوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جو دارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہر جگہ جاری رہے گی۔

حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دو تعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہر دو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے «عن عامر قال سمعت عبدالله بن عمرو» کے الفاظ نقل کئے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سماع ثابت ہو گیا۔

دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں «عبدالله» کو غیر منتسب ذکر کیا گیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں «عن عبدالله بن عمرو» کی صراحت کر دی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو عاص مراد ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 10   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 6  
´مسلمان کے اوصاف`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ» هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ قَالَ: " إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ من لِسَانه وَيَده " . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی سے رہیں اور مہاجر وہ ہے کہ جس نے ان چیزوں کو چھوڑ دیا ہو جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کون سا مسلمان اچھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بچے رہیں۔ (یعنی ہاتھ سے نہ کسی کو مارے اور نہ زبان سے کسی کی غیبت و چغلی کرے۔ ایسا مسلمان کامل مسلمان ہے۔) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 6]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 10]،
[صحيح مسلم 161]

فقہ الحدیث
➊ کامل مسلمان کی (ایک) نشانی یہ ہے کہ دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں، وہ انہیں ضرر نہیں پہنچاتا، جب کہ منافق کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں رہتے، وہ ہر وقت مسلمانوں کو ایذا رسانی میں مصروف رہتا ہے۔
➋ کتاب و سنت میں جو احکامات آتے ہیں ان میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، الا یہ کہ تخصیص کی واضح دلیل ہو، لہٰذا اس حدیث میں «المسلم» کے مفہوم میں «المسلمه» (مسلمان عورت) بھی شامل ہے۔
➌ زبان سے محفوظ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو گالی، لعن و طعن، غیبت، چغلی، بہتان، مذاق اڑانا، ذلیل کرنا اور جھوٹے پروپیگنڈے وغیرہ کا نشانہ نہیں بناتا۔ اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مارکٹائی، قتل و غارت، دھکے دینا، مال و جائیداد کی تباہی، باطل تحریروں اور ایذا رسانی کا نشانہ نہیں بناتا۔
تنبیہ: دلائل کے ساتھ اہل باطل پر رد کرنا اس سے مستثنیٰ ہے، بلکہ انتہائی ثواب کا کام ہے۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فكل من لم يناظر أهل الإلحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم، لم يكن أعطى الإسلام حقه»
پس ہر وہ شخص جو (اپنی استطاعت کے مطابق) ملحدین و مبتدعین سے مناظرہ کر کے انہیں لاجواب نہ کر دے (تو) اس نے اسلام کا (صحیح) حق ادا نہیں کیا۔ [درء تعارض العقل والنقل، ج 1، ص357]
علمائے حق نے ہر دور میں اہل بدعت پر رد کیا ہے، جس کے دلائل کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ «والحمدلله»
➍ مہاجر کا لفظ ہجرت (جدائی) سے نکلا ہے نفس امارہ اور شیطان سے بچنا، باطنی ہجرت ہے اور فتنوں، بدعتوں، گمراہیوں اور گناہوں سے بچنا ظاہری ہجرت ہے۔
➎ ❀ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والمجاهد من جاهد نفسه فى طاعة الله والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب»
مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں (خوب) کوشش کرے، اور مہاجر وہ ہے جو غلطیوں اور گناہوں سے دور رہے۔ [شعب الايمان للبيهقي: 11123، وسنده حسن و اضواء المصابيح: 34، صحيح ابن حبان، موارد الظمآن: 25]
یہ روایت الفاظ کے اختلاف اور کمی بیشی کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
سنن ابن ماجہ [3934]، مسند احمد [21/6، 22]، المستدرک [10/1، 11]، مسند الشہاب للقضاعی [109/1 ح 131]، کشف الاستار [مسند البزار: 1143] اور کتاب الایمان لابن مندۃ [ح 315]
➑ ایک صحیح و حسن روایت میں کچھ الفاظ موجود نہ ہوں اور دوسری صحیح یا حسن روایت میں کچھ الفاظ کا اضافہ موجود ہو، اور یہ اضافہ پہلی روایت کے سراسر خلاف نہ ہو، تو الفاظ کے اضافے والی روایت ضعیف نہیں ہو جاتی، بلکہ ثقہ کی زیادت جب تک ثقہ راویوں کے بخلاف نہ ہو مقبول ہی رہتی ہے، جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔
اس حدیث میں ایمان کے دو اعلیٰ درجوں کا ذکر ہے۔
اس میں مرجیہ وغیرہ کا رد ہے، جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں ہیں اور جن کے نزدیک سب کا ایمان اور اسلام برابر ہوتا ہے، حالانکہ حدیث مذکور اور دیگر دلائل سے صاف ثابت ہے کہ ایمان اور اسلام میں لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔
تنبیہ:
یہ فوائد مرعاۃ المفاتیح وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔
➐ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما وہ مشہور صحابی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لکھ لیتے تھے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ما من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم احد اكثر حديثا عنه مني الا ماكان من عبدالله بن عمرو فانه كان يكتب ولا اكتب»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثیں آپ سے بیان کرنے والا کوئی نہیں سوائے عبداللہ بن عمرو کے وہ (حدیثیں) لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔ [صحيح البخاري: 113]
عبداللہ بن عمرو کی لکھی ہوئی کتاب کانام «الصحيفة الصادقة» ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 6   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2481  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2481]
فوائد ومسائل:
ایک باکردار مسلمان کے اوصاف کو اس حدیث میں جس مختصر اور جامع اندا ز میں پیش کیا گیا ہے۔
وہ یقینا ً الہامی ہیں۔
ہرمسلمان اپنے آپ کو اس آئینے میں جانچ کراندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس درجے کا مسلمان ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2481