سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
13. باب فِي السَّرِيَّةِ تَخْفِقُ
باب: مال غنیمت کے بغیر واپس ہونے والے لشکر کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2497
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحُبُلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُصِيبُونَ غَنِيمَةً إِلَّا تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أَجْرِهِمْ مِنَ الْآخِرَةِ وَيَبْقَى لَهُمُ الثُّلُثُ فَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی کوئی جماعت ایسی نہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتی ہو پھر مال غنیمت حاصل کرتی ہو، مگر آخرت کا دو تہائی ثواب اسے پہلے ہی دنیا میں حاصل ہو جاتا ہے، اور ایک تہائی (آخرت کے لیے) باقی رہتا ہے، اور اگر اسے مال غنیمت نہیں ملا تو آخرت میں ان کے لیے مکمل ثواب ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإمارة 44 (1906)، سنن النسائی/الجھاد 15 (3127)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 13 (2785)، (تحفة الأشراف: 8847)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/169) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2785  
´جہاد کی نیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ے سنا: لشکر کی جو ٹکڑی اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مال غنیمت پا لے، تو سمجھو اس نے ثواب کا دو تہائی حصہ تو دنیا ہی میں حاصل کر لیا، لیکن اگر مال غنیمت نہیں ملتا تو ان کے لیے پورا ثواب ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2785]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہاد میں زیادہ مشکلات برداشت کرنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے۔

(2)
غنیمت نہ ملنے پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انجام کے لحاظ سے یہ بہتر ہے۔

(3)
مال غنیمت کو صرف ذاتی ضروریات پوری کرنے کے بجائےاللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ پورا ثواب مل جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2785   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2497  
´مال غنیمت کے بغیر واپس ہونے والے لشکر کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی کوئی جماعت ایسی نہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتی ہو پھر مال غنیمت حاصل کرتی ہو، مگر آخرت کا دو تہائی ثواب اسے پہلے ہی دنیا میں حاصل ہو جاتا ہے، اور ایک تہائی (آخرت کے لیے) باقی رہتا ہے، اور اگر اسے مال غنیمت نہیں ملا تو آخرت میں ان کے لیے مکمل ثواب ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2497]
فوائد ومسائل:
انسان جس قدر بھی نعمتیں اس دنیا میں استعمال کر رہا ہے۔
وہ اپنے آخرت کے حصے سے استعمال کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اس قدر جو دنیا دی گئی ہے۔
تو ہمیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ اس دنیا میں تو نہیں دے دیا گیا۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1275) حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم میں سے کچھ کے پھل یہیں پک گئے ہیں۔
اور وہ اب ان سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1276) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لذید مطعومات ومشروبات کا ستعمال ترک کر دیا تھا۔
اور آخرت میں کفار سے بالخصوص کہا جائے گا۔
(أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ ﴿٢٠﴾  (الاحقاف۔
20)
  تم دنیا کی زندگی میں اپنی لذتیں حاصل کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھا چکے سو آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائےگا۔
یہ اس کی سزا ہے کہ تم زمین میں ناحق غرور کیا کرتے تھے ااور بدکردار تھے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2497