سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
24. باب فِي الرَّمْىِ
باب: تیر اندازی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2513
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَّامٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ وَارْمُوا وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَ مَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا أَوْ قَالَ كَفَرَهَا".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے: ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے، دوسرے اس کے چلانے والے کو، اور تیسرے اٹھا کر دینے والے کو، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو، اور تمہارا تیر اندازی کرنا، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے: ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دیا، تو یہ ایک نعمت ہے جسے اس نے چھوڑ دیا، یا راوی نے کہا: جس کی اس نے ناشکری کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الجھاد 26 (3148)، والخیل 8 (3608)، (تحفة الأشراف: 9922) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی خالد لین الحدیث ہیں) (حدیث کے بعض الفاظ ثابت ہیں یعنی یہ ٹکڑا: «لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلا ثَلاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ» اس لیے کہ اس کی روایت میں عبداللہ بن الأزرق نے خالد کی متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: سنن الترمذی/فضائل الجھاد 11 (1637)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 19 (2811)، مسند احمد (4/144، 146، 148، 154)، سنن الدارمی/الجھاد 14 (2449) (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی: 315)

وضاحت: ۱؎: یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے مگر عقبہ ہی سے صحیح مسلم (امارۃ: ۵۲) میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: جس نے تیر اندازی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے، یا فرمایا: اس نے نافرمانی کی، نیز اس حدیث سے تیراندازی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس طرح زمانے کے جتنے سامان جنگ ہیں ان کا سیکھنا اور حاصل کرنا اور اس کے لئے سفر کرنا جہاد میں داخل ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2811  
´اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل: 1۔
مسلمان کو تفریح کے طور پر ایسے کام کرنے چاہییں جن سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔
تفریح برائے تفریح کا نظریہ غلط ہے۔ 2۔
تیر اندازی کی مشق سے ذاتی دفاع کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے اور دین کے لیے جنگ کرنے کا بھی اس لیے یہ جائز تفریح ہے۔

(3)
جدید دور میں جو اسلحہ کفار کے خلاف جنگ میں استعمال ہوسکتا ہےاس کی تربیت حاصل کرنا تیر اندازی کی مشق کے حکم میں ہے۔

(4)
گھوڑے کو تربیت دینے کا مقصد جنگ میں اس سے کام لینا ہے اس لیے مختلف گاڑیوں، ٹینکوں اور طیاروں وغیرہ کے چلانےاور اڑانے کی تربیت اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کرنا اور سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔

(5)
بیوی سے دل لگی کرنا خود کو اوراس کو گناہ سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
اور پاک دامنی اسلامی معاشرے کی مطلوب اشیاء میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اخلاق وکردار کی حفاظت بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح ملکی سرحدوں کا دفاع۔
اس کے علاوہ بیوی سے نیک اولاد کا حصول اسلامی سلطنت کے دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کافر ممالک مسلمانوں کو آبادی کم کرنے کا سبق دیتے ہیں اور خود اپنی آبادیاں بڑھانے میں کوشاں ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2811   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1637  
´اللہ کی راہ (جہاد) میں تیر پھینکنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو، آپ نے فرمایا: تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1637]
اردو حاشہ:
نوٹ:
1- (پہلی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں،
لیکن كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1637   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2513  
´تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے: ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے، دوسرے اس کے چلانے والے کو، اور تیسرے اٹھا کر دینے والے کو، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو، اور تمہارا تیر اندازی کرنا، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے: ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2513]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی کے نذدیک یہ روایت ضعیف ہے۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
جس کی وجہ سے حدیث میں مذکورہ اعمال کی اباحت اور فضیلت ثابت ہے۔
لہذا اگر کسی تفریح کا پروگرام ہو و انہی مذکورہ بالا تفریحات میں سے کسی کو ترجیح دی جائے تاکہ جسمانی قوت اور تفریح کے ساتھ ساتھ عند اللہ اجر وثواب کا بھی مستحق ٹھہرے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2513