سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
49. باب فِي تَقْلِيدِ الْخَيْلِ بِالأَوْتَارِ
باب: گھوڑے کی گردن میں تانت کے گنڈے پہنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2552
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ لَا يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِنْ وَتَرٍ، وَلَا قِلَادَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ، قَالَ مَالِكٌ: أَرَى أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَجْلِ الْعَيْنِ.
ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے۔ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 139 (3005)، صحیح مسلم/اللباس 28 (2115)، (تحفة الأشراف: 11862)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صفة النبی 13 (39)، مسند احمد (5/216) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 432  
´نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے`
«. . . 307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت. قال مالك: أرى ذلك من العين. . . .»
. . . سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 432]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3005، ومسلم 2115، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ دھاگے منکے وغیرہ لٹکا کر یہ سمجھنا کہ بیماری نہیں لگے گی یا نظر بد سے بچاؤ ہوجائے گا، جائز نہیں ہے مگر قرآنی اور غیر شرکیہ عبارات لکھ کر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان اختلاف ہے۔ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 351/9 وسنده صحيح] لیکن بہتر یہی ہے کہ ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔
◄ ابرہیم نخعی رحمہ اللہ بچوں کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہونے کی وجہ سے تعویذ مکروہ سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 376/7 ح 23466 وسنده صحيح، دوسرا نسخه 16/8 ح 23823،]
➋ اسحاق بن منصور الکوسج رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قرآن لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہر شئے (علاج کے لئے لکھ کر) لٹکانا مکروہ ہے۔ [ديكهئے مسائل اسحاق و احمد ج 1 ص 193 فقره 382، التمهيد 164/17] ۔ راجح یہی ہے کہ قرآنی و غیر شرکیہ تعویذ شرک یا بدعت نہیں ہے لیکن سدِ ذرائع کے طور پر یہ تعویذ بھی نہیں پہننے چاہئیں۔
➌ شبہات والی اور مشکوک چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
➍ نظر کا لگ جانا برحق ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5740 و صحيح مسلم 2187] لیکن اس کا علاج تعویذ گنڈے نہیں بلکہ مسنون دعائیں ہیں۔ مثلاً «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» والی دعا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 3371]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 307   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2552  
´گھوڑے کی گردن میں تانت کے گنڈے پہنانے کا بیان۔`
ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‏‏‏‏ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2552]
فوائد ومسائل:
علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ امام مالک اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ لوگ اسے نظر بد سے بچائو کےلئے بطور تعویذ ڈالتے تھے۔
اور اسے ہی موثر سمجھتے تھے۔
کئی علماء کا خیال ہے کہ لوگ یہ ان کے گلوں میں گھنٹیاں باندھنے کے لئے ڈالتے تھے۔
کچھ نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ دوڑتے بھاگتے ہوئے جانور کا گلا گھٹ جائے۔
بہر حال وجہ کوئی بھی ہو تانت ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اور اسی طرح دیگر جاہلانہ تعویز گنڈے بھی ڈالنا جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2552