سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
76. باب فِي الرَّايَاتِ وَالأَلْوِيَةِ
باب: جنگ میں جھنڈے اور پرچم لہرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2593
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ الشَّعِيرِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، عَنْ آخَرَ مِنْهُمْ، قَالَ: رَأَيْتُ رَايَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفْرَاءَ.
سماک اپنی قوم کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اور اس نے انہیں میں سے ایک دوسرے شخص سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم زرد دیکھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15703) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں دو مبہم راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2593  
´جنگ میں جھنڈے اور پرچم لہرانے کا بیان۔`
سماک اپنی قوم کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اور اس نے انہیں میں سے ایک دوسرے شخص سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم زرد دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2593]
فوائد ومسائل:

جہاد میں جھنڈے کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔


قرون اولیٰ میں جھندوں کا کوئی رنگ اورسائز مخصوص نہ ہوتا تھا۔
اور یہ زرد رنگ والی روایت ضعیف ہے۔


جنگ میں اور دیگر اہم مواقع پر جھنڈے کو بلند اور نمایاں رکھنا بلاشبہ مطلوب ہے۔
مگر یہ سب ایک نظم کے لئے ہوتا ہے۔
اسے تقدس اوراحترام کا ایسا مفہوم دینا جو آجکل عام کردیا گیا ہے۔
غیر شرعی ہے، بلکہ شرک کی حدود کو چھوتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2593