سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
94. باب مَنْ قَالَ إِنَّهُ يَأْكُلُ مِمَّا سَقَطَ
باب: زمین پر گری ہوئی چیزوں کے کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2622
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، وَأَبُو بَكْرٍ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ وَهَذَا لَفْظُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ مُعْتَمِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي حَكَمٍ الْغِفَارِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي، عَنْ عَمِّ أَبِي رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ، قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا أَرْمِي نَخْلَ الْأَنْصَارِ، فَأُتِيَ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا غُلَامُ لِمَ تَرْمِي النَّخْلَ؟ قَالَ: آكُلُ، قَالَ: فَلَا تَرْمِ النَّخْلَ وَكُلْ مِمَّا يَسْقُطُ فِي أَسْفَلِهَا ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَشْبِعْ بَطْنَهُ".
ابورافع بن عمرو غفاری کے چچا کہتے ہیں کہ میں کم سن تھا اور انصار کے کھجور کے درختوں پر ڈھیلے مارا کرتا تھا، لوگ مجھے (پکڑ کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، آپ نے فرمایا: بچے! تم کھجور کے درختوں پر کیوں پتھر مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: (کھجوریں) کھانے کی غرض سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پتھر نہ مارا کرو، جو نیچے گرا ہو اسے کھا لیا کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور میرے لیے دعا کی کہ اے اللہ اس کے پیٹ کو آسودہ کر دے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 54 (1288)، سنن ابن ماجہ/التجارات 67 (2299)، (تحفة الأشراف: 3595) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس سند میں ابن أبی الحکم مجہول ہیں، اور ان کی دادی مبہم)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1288  
´راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان۔`
رافع بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے آپ نے پوچھا: رافع! تم ان کے کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا: پتھر مت مارو، جو خودبخود گر جائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1288]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں صالح اوران کے باپ ابوجبیر دونوں مجہول ہیں،
اور ابوداؤد وابن ماجہ کی سند میں ابن ابی الحکم مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1288