سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
104. باب عَلَى مَا يُقَاتَلُ الْمُشْرِكُونَ
باب: کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔
حدیث نمبر: 2642
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الْمُشْرِكِينَ بِمَعْنَاهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 789)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الصلاة 28 (393 تعلیقًا) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2642  
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2642]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث میں الناس (لوگوں) سے مراد مشرک لوگ ہیں۔
یا مفسد یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے قائل وفاعل نہ ہوں۔


اہل اسلام اور اصحاب امن سے قتال کے کوئی معنی نہیں اسے کسی طور جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2642