سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
104. باب عَلَى مَا يُقَاتَلُ الْمُشْرِكُونَ
باب: کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔
حدیث نمبر: 2644
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقْتُلْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَطَعَ يَدِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ".
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہو جائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے: میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں تم اسے قتل نہ کرو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو قتل کرنے سے پہلے تمہارا جو مقام تھا وہ اس مقام میں آ جائے گا اور تم اس مقام میں پہنچ جاؤ گے جو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے اس کا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المغازي 12 (4019)، والدیات1 (6865)، صحیح مسلم/الإیمان 41 (95)، (تحفة الأشراف: 11547)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/3، 4، 5، 6) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی وہ معصوم الدم قرار پائے گا اور تمہیں بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4019  
´کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے`
«. . . قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا , فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ , أَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ . . .»
. . . انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے میں اللہ پر ایمان لے آیا۔ تو کیا یا رسول اللہ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4019]

لغوی توضیح:
«لَاذَ» فعل ماضی کا صیغہ ہے، باب «لَاذَ يَلُوْذُ» (بروزن نصر) سے، معنی ہے پناہ پکڑنا۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے خواہ حالات یہ بتا رہے ہوں کہ اس نے محض اپنی جان بچانے کے لیے ہی کلمہ پڑھا ہے، دل کی تصدیق سے نہیں۔ کیونکہ حکم ظاہر پر لگایا جاتا ہے، کسی بھی بندے کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ پوشیدہ باتوں کی بھی معرفت حاصل کرے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 61   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2644  
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔`
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہو جائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے: میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں تم اسے قتل نہ کرو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو قتل کرنے سے پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2644]
فوائد ومسائل:

کوئی بھی ذمہ داری لینے سے پہلے اس کے فرائض واجبات اور حقوق و آداب کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
جیسے کہ حضرت مقدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفصیلات حاصل کیں۔


ہرمجاہد اسلام اورہر داعی کو اپنے میدان عمل میں انتہائی دانشمندی حلم و صبر اور اطاعت شریعت کا ثبوت دینا لازمی ہے۔


بلا سبب شرعی کسی مسلمان کا قتل کرنا جرم عظیم ہے۔
اور اس کی سزا جہنم ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2644