سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
151. باب فِيمَنْ جَاءَ بَعْدَ الْغَنِيمَةِ لاَ سَهْمَ لَهُ
باب: جو شخص مال غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا۔
حدیث نمبر: 2726
حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ هَانِئِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ: إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ، وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُفَضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمٍ، وَلَمْ يَضْرِبْ لِأَحَدٍ غَابَ غَيْرَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا: بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6684) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عثمان رضی اللہ عنہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے، کیونکہ آپ کی اہلیہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں ان ایام میں سخت بیمار تھیں اسی وجہ سے ان کی دیکھ ریکھ کے لئے انہیں رکنا پڑ گیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3706  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی الله عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3706]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا،
اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا،
یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔

2؎: یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے،
ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

3؎: اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی ﴿وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (سورة آل عمران:155) پوری آیت اس طرح ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (آل عمران:155) یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی،
یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے،
لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا،
اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2726  
´جو شخص مال غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا: بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2726]
فوائد ومسائل:
بد ر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے خود انھیں حضرت رقیہ کی خدمت وتمارداری کے لئے پابند فرمایا تھا۔
اورپھر وہ اس بیماری میں وفات پاگئیں تھیں۔
اسی بنیاد پر انہیں غنیمت میں حصہ دیا گیا تھا۔
البتہ اس میں بعیت والی بات رواوی کا وہم ہے۔
کیونکہ نبی کریمﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بعیت حدیبیہ کے موقع پرلی تھی۔
یہاں راوی کو وہم ہوا ہے۔
اور اس نے اسے بدر کے واقعے میں بیان کر دیا ہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوا کہ جو شخص مجاہدین کی کوئی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے قتال میں شریک نہ ہوا اسے بھی غنیمت میں سے حصہ دیا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2726