سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
158. باب فِيمَنْ قَالَ الْخُمُسُ قَبْلَ النَّفْلِ
باب: مال غنیمت میں سے نفل (انعام) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 2750
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ، وَمَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيَّانِ المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَهْبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مَكْحُولًا، يَقُولُ: كُنْتُ عَبْدًا بِمِصْرَ لِامْرَأَةٍ مِنْ بَنِي هُذَيْلٍ، فَأَعْتَقَتْنِي فَمَا خَرَجْتُ مِنْ مِصْرَ وَبِهَا عِلْمٌ إِلَّا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الْحِجَازَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلَّا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الْعِرَاقَ فَمَا خَرَجْتُ مِنْهَا وَبِهَا عِلْمٌ إِلَّا حَوَيْتُ عَلَيْهِ فِيمَا أُرَى، ثُمَّ أَتَيْتُ الشَّامَ فَغَرْبَلْتُهَا كُلُّ ذَلِكَ أَسْأَلُ عَنِ النَّفَلِ، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي فِيهِ بِشَيْءٍ حَتَّى أَتَيْتُ شَيْخًا يُقَالُ لَهُ زِيَادُ بْنُ جَارِيَةَ التَّمِيمِيُّ، فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ سَمِعْتَ فِي النَّفَلِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيَّ يَقُولُ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفَّلَ الرُّبُعَ فِي الْبَدْأَةِ، وَالثُّلُثَ فِي الرَّجْعَةِ".
مکحول کہتے ہیں میں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کر دیا، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کر لیا، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا، ہر شخص سے میں نفل کا حال پوچھتا تھا، میں نے کسی کو نہیں پایا جو اس سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کرے، یہاں تک کہ میں ایک شیخ سے ملا جن کا نام زیاد بن جاریہ تمیمی تھا، میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے نفل کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ کہا: ہاں! میں نے حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں ایک چوتھائی بطور نفل دیا اور لوٹ آنے کے بعد (پھر حملہ کرنے پر) ۱؎ ایک تہائی بطور نفل دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2748)، (تحفة الأشراف: 3293) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ لوٹ آنے کے بعد پھر لڑنے کے لئے جانا سخت اور دشوار عمل ہے کیونکہ دشمن چوکنا اور محتاط ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2750  
´مال غنیمت میں سے نفل (انعام) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
مکحول کہتے ہیں میں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کر دیا، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کر لیا، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا، ہر شخص سے میں نفل کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2750]
فوائد ومسائل:

یہ احادیث اسی امر پر محمول ہیں۔
کہ غنیمت میں سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حصہ (خمس) نکال لیا گیا تھا۔
تب غنیمت تقیسم ہوئی۔
اور اضافی انعامات بھی دیئے گئے۔


جناب مکحول شامی معروف اور ثقہ تابعین میں سے ہیں۔
علم دین کی برکت سے اللہ عزوجل نے انہیں غلامی کی پستی سے نکال کر امت مسلمہ کی امامت کا بلند مقام عطا فرمایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2750   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2748  
´مال غنیمت میں سے نفل (انعام) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مال غنیمت میں سے) خمس (پانچواں حصہ) نکالنے کے بعد ثلث (ایک تہائی) بطور نفل (انعام) دیتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2748]
فوائد ومسائل:
کفار سے مقابلے میں حاصل ہونے والے مال واسباب کو غنیمت کہا جاتا ہے۔
اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے نام کا ہوتا ہے۔
جسے عربی میں خمس کہتےہیں۔
رسول اللہ ﷺ یہ حصہ اپنے صوابدید پر پانچ جگہ خرچ کرسکتےتھے۔
اس مسئلے کا ذکر دسویں پارے کی ابتداء میں ہواہے۔
(وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ) (الانفال۔
41)
یہ جان لو کہ تمھیں جو کچھ بھی غنیمت میں ملے اس سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے۔
اور رسول ﷺ کا ہے۔
اور قرابت داروں یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔
بقیہ غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پیدل کو ایک حصہ اور سوار کو مذید دو حصے ملتے ہیں۔
اور کافروں سے بغیرلڑے بھڑے حاصل ہونے والے مال کو فے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اور اس کا مصرف بھی تقریبا یہی ہے۔
(دیکھئے۔
سورۃ الحشر آیات۔
6 وما بعد)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2748   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2851  
´مال غنیمت میں سے ہبہ کرنے کا بیان۔`
حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ جو اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے) نکال لینے کے بعد مال غنیمت کا ایک تہائی بطور نفل ہبہ اور عطیہ دیتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2851]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
امیر لشکر کو حق حاصل ہے کہ کوئی خاص کارنامہ انجام دینے والے دستے کو غنیمت میں ان کے حصے کے علاوہ خصوصی انعام بھی دے۔
یہ خصوصی انعام خمس میں سے دیا جاتا ہے۔

(2)
خمس کے بعد کا مطلب یہ ہے کہ غنیمت میں سے بیت المال کا پانچواں حصہ الگ کرنے کے بعد باقی مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا اس کے بعد خمس میں سے کچھ حصہ مزید انعام کے طور پر دیا۔
بعض علماء کے نزدیک خمس نکال کر باقی چار حصوں میں سے کچھ خاص انعام دیا پھر سب مجاہدین میں تقسیم کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2851   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1112  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ میں پہلی مرتبہ جانے پر چوتھا حصہ زائد عطا فرمایا اور دوبارہ جانے پر تیسرا حصہ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن جارود، ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1112»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الجهاد، باب فيمن قال: الخمس قبل النفل، حديث:2750، وابن حبان (الموارد)، حديث:1672، والحاكم:2 /133، 3 /432 وصححه، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو عبدالرحمن حبیب بن مسلمہ فہری مکی۔
صحابی ہیں۔
حبیب روم کے لقب سے معروف تھے کیونکہ رومیوں کے لیے ان کی بہت سی خدمات ہیں۔
ارمینیہ کے والی بنے اور وہیں ۴۱ یا ۴۲ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1112