سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
166. باب فِي الرُّسُلِ
باب: ایلچی اور سفیر کا بیان۔
حدیث نمبر: 2762
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، فَقَالَ: مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ فَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ، قَالَ لَهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ".
حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9196)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/384)، سنن الدارمی/السیر 60 (2545) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2762  
´ایلچی اور سفیر کا بیان۔`
حارثہ بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے۔‏‏‏‏ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2762]
فوائد ومسائل:
دارالسلام میں کفر اور ارتداد کا کھلے عام اظہار ناقابل معافی جرم ہے۔
بالخصوص سرغنے قسم کے لوگوں سے تو کسی قسم کی رعایت نہیں رکھی جا سکتی۔
بعض لوگ اسے حریت فکر کا قائل نہیں۔
جس کا نتیجہ الحاد لادینیت اور ارتداد ہو اور اسلام ہی نہیں۔
کوئی بھی نظریاتی ملک اپنے اساسی نظریات کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہیں دیتا۔
اس لئے کہ اس کا نتیجہ فکری انتشار اور نظریاتی انارکی کی صورت میں نکلتا ہے۔
یہ آذادی افکار وہی ہے۔
جس کی بابت اقبال نے کہا تھا:
آزادی افکار سے ہے۔
ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر وتدبر کا سلیقہ ہوفکر اگرخام تو آذادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اس کی بابت مذید فرمایا! اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بندے سے آزاد گر فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ آذادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2762