سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
168. باب فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ
باب: دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2767
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، قَالَ: مَالَ مَكْحُولٌ، وَابْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ، إِلَى خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمِلْتُ مَعَهُمَا، فَحَدَّثَنَا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، قَالَ: قَالَ جُبَيْرٌ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ذِي مِخْبَر رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْنَاهُ فَسَأَلَهُ جُبَيْرٌ عَنِ الْهُدْنَةِ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا وَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ".
حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا خالد بن معدان کی طرف مڑے اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں: جبیر نے (مجھ سے) کہا: ہمیں ذومخبر رضی اللہ عنہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں کے پاس لے چلو، چنانچہ ہم ان کے پاس آئے جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قریب ہے کہ تم روم سے ایسی صلح کرو گے کہ کوئی خوف نہ رہے گا، پھر تم اور وہ مل کر ایک اور دشمن سے لڑو گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الفتن 35 (4089)، (تحفة الأشراف: 3547)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/91، 5/409) ویأتی عند المؤلف فی الملاحم برقم (4293) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4089  
´اہم حادثات اور فتنوں کا بیان۔`
حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا، خالد بن معدان کی طرف مڑے، اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا، خالد نے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا کہ جبیر نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ذی مخمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، چنانچہ میں ان دونوں کے ہمراہ چلا، ان سے صلح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: عنقریب ہی روم والے تم سے ایک پر امن صلح کریں گے، اور تمہارے ساتھ مل کر دشمن سے لڑیں گے، پھر تم فتح حاصل کرو گے، اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آئے گا، اور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4089]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عیسائیوں کے مختلف فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔
مختلف ممالک میں الگ الگ فرقوں کی اکثریت ہےاس لیے ایک فرقے کے عیسائی دوسرے فرقے کے عیسائیوں کے مظالم سے تنگ آکر مسلمانوں سے تعاون کرسکتے ہیں جس طرح زمانہ حال میں یوگو سلاویہ کے سرب اور کروٹ آپس میں مل کر نہیں رہ سکے چنانچہ سربیا اور کروشیا الگ الگ ملک بن گئے، اور سربوں سے مخالفت کی وجہ سے کروٹ عیسائی بوسنیا ہرزیگو وینا کے مسلمانوں کے حامی بن گئے۔
مستقبل میں کسی بڑے ملک میں بھی ایسی صورت حال پیش آسکتی ہے۔
یا عیسائی اور مسلمان کسی تیسرے ملک (ہندو مت یا بدھ مت وغیرہ کے پیروکاروں)
کے خلاف متحد ہوکر لڑسکتے ہیں۔

(2)
مسلمانوں اور عیسائیوں کی وقتی مصالحت دائمی نہیں ہوسکتی کیونکہ عیسائی دل میں مسلمانوں سے بغض رکھتے ہیں لہٰذا موقع ملنے پر کوئی معمولی سا بہانہ بنا کرمسلمانوں کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں۔

(3)
مسلمانوں کو غیر مسلموں سے صلح کا معاہدہ کرنے کے باوجود ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنے دفاع کا مکمل بندوبست کرنا چاہیے۔

(4)
مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی جنگی مہم کا ذکر حدیث 4042 میں بھی گزرچکا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4089   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2767  
´دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔`
حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا خالد بن معدان کی طرف مڑے اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں: جبیر نے (مجھ سے) کہا: ہمیں ذومخبر رضی اللہ عنہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں کے پاس لے چلو، چنانچہ ہم ان کے پاس آئے جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قریب ہے کہ تم روم سے ایسی صلح کرو گے کہ کوئی خوف نہ رہے گا، پھر تم اور وہ مل کر ایک اور دشمن سے لڑو گے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2767]
فوائد ومسائل:
حسب مصلحت دشمن سے صلح کی جا سکتی ہے۔
یہ حدیث کتاب الملاحم میں تفصیل سے آئے گی۔
(سنن أبي داود، الملاحم، حدیث: 4292)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2767