سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا -- کتاب: قربانی کے مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الأَضَاحِي
باب: قربانی کے وجوب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2788
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ. ح وحَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ، عَنْ عَامِرٍ أَبِي رَمْلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ هَذِهِ الَّتِي يَقُولُ النَّاسُ الرَّجَبِيَّةُ؟، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْعَتِيرَةُ مَنْسُوخَةٌ هَذَا خَبَرٌ مَنْسُوخٌ.
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور «عتیرہ» ہے ۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «عتیرہ» منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأضاحي 19(1518)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة 1(4229)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي2 (3125)، (تحفة الأشراف: 11244)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/215، 5/76) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «عتیرہ» وہ ذبیحہ ہے جو اوائل اسلام میں رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کیا جاتا تھا، اسی کا دوسرا نام «رجبیہ» بھی تھا، بعد میں «عتیرہ» منسوخ ہو گیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3125  
´قربانی واجب ہے یا نہیں؟`
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ۱؎ اور ایک «عتیرہ» ہے، تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3125]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کتاب الذبائح کے دوسرے باب میں وارد حدیث میں عتیرہ کی مشروعیت کی نفی کی گئی ہے۔
بعض علماء نے ان دونوں کو اس انداز سے جمع کیا ہے کہ عید کی قربانی واجب ہے۔
اور رجب کی قربانی نفل یعنی (لاعتيرة)
کوئی عتیرہ نہیں کا مطلب یہ ہے کہ عتیرہ واجب نہیں اور زیر مطالعہ حدیث کا مطلب ہوگا کہ عتیرہ مشروع ہے۔
بہت سے علماء نے عتیرہ کو منسوخ قراردیا ہے۔

(2)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ سنن النسائي اور سنن ابي داؤد کی احادیث اس سے کفایت کرتی ہیں۔ دیکھیے تحقیق و تخریج حدیث ہذا۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے حسن قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 29/ 419، 420 وصحيح سنن إبي داؤد (مفصل)
للألباني، حديث: 2287)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3125   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1518  
´قربانی سے متعلق ایک اور باب۔`
مخنف بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے آپ کو فرماتے سنا: لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال ایک قربانی اور «عتيرة» ہے، تم لوگ جانتے ہو «عتيرة» کیا ہے؟ «عتيرة» وہ ہے جسے تم لوگ «رجبية» کہتے ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1518]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1518   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2788  
´قربانی کے وجوب کا بیان۔`
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور «عتیرہ» ہے ۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: «عتیرہ» منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2788]
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے(عتیرة) کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
جب کہ آگے حدیث (2831) سے اس کے جواز کی نفی ہوتی ہے۔
اور یہی بات راحج ہے۔


اس حدیث سے بظاہر قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔
لیکن دوسرے دلائل سے اس کا استحباب واستنان معلوم ہوتا ہے۔
اس لئے محدثین نے ان سارے دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے ہوئے فیصلہ کیا ہے۔
کہ قربانی سنت موکدہ ہے۔
یعنی ایک اہم اور موکد حکم ہے۔
لیکن فرض نہیں۔
تاہم استطاعت کے باوجود اس سنت موکد ہ سے گریز کسی طرح بھی صحیح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2788