سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا -- کتاب: قربانی کے مسائل
2. باب الأُضْحِيَةِ عَنِ الْمَيِّتِ
باب: مردے کی طرف سے قربانی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2790
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ.
حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأضاحي 3 (1495)، (تحفة الأشراف: 10072)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/107، 149، 150) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابوالحسناء مجہول ہیں، نیز حنش کے بارے میں بھی اختلاف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2790  
´مردے کی طرف سے قربانی کا بیان۔`
حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2790]
فوائد ومسائل:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
تاہم امام ابن تیمیہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کے قائل ہیں، جیسے کہ حج اور صدقہ ہوتا ہے۔
لہذا اگرکوئی اپنے کسی فوت شدہ قریبی کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہوگی۔
ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔
تو قربانی بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بھی تو صدقہ ہے۔
اس لئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے۔
اس کا سارا گوشت تقسیم کر دیا جائے۔
خود اس میں سے نہ کھائے۔
(تحفة الأحوذی) دوسرے علماء کہتے ہیں۔
چونکہ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پرمیت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
حالانکہ آپ ﷺکی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی تین صاحبزادیاں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ دنیا سے جا چکے تھے۔
لیکن آپ نے ان میں سے کسی کےلئے بھی خصوصی طور پر قربانی جائز نہیں کی۔
البتہ آپ نے اپنی قربانی میں یہ الفاظ ضرور کہے۔
اے اللہ! اس کو محمد ﷺ اور آل محمدﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما۔
(صحیح مسلم،کتاب الأوضاحی، حدیث: 1967) اس میں امت محمد ﷺ کے زندہ اور فوت شدہ سارے ہی افراد آجاتے ہیں۔
اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔
اپنی قربانی میں قربانی کرنے والا جن جن کو چاہے شریک کرسکتا ہے۔
حتیٰ کہ فوت شدگان کوبھی لیکن ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی پر اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
بنا بریں صرف فوت شدگان کی طرف سے الگ مستقل قربانی کا جواز محل نظرہوگا۔
غالبا اسی لئے شیخ البانی نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔
کہ امت کی طرف سے قربانی کرنے والا عمل نبی کریمﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔
جس میں امت کےلئے آپ کی اقتداء جائز نہیں۔
دیکھئے۔
(إرواءالغلیل: 353/4) اس کی تایئد اس سے بھی ہوتی ہے۔
کہ سلف (صحابہ وتابعین) کے دور میں اس عمل (میت کی طرف سے قربانی کرنے) کا ثبوت نہیں ملتا۔
واللہ اعلم۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2790