سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا -- کتاب: قربانی کے مسائل
4. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَايَا
باب: کس قسم کا جانور قربانی میں بہتر ہوتا ہے؟
حدیث نمبر: 2792
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ فَأُتِيَ بِهِ فَضَحَّى بِهِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ، ثُمَّ قَالَ: اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ فَفَعَلَتْ، فَأَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ وَذَبَحَهُ، وَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو، تو میں نے چھری تیز کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قربانی کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الأضاحي 3 (1967)، (تحفة الأشراف: 17363)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/78) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2792  
´کس قسم کا جانور قربانی میں بہتر ہوتا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو، تو میں نے چھری تیز کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2792]
فوائد ومسائل:

قربانی کا جانور صحت مند اور خوش نظر ہونا چاہیے۔
مذکورہ بالا صفات پائی جایئں۔
تو بہت ہی عمدہ ہے۔


چھری خوب تیز ہونی چاہیے۔


امت محمد ﷺ کی طرف سے قربانی آپ ﷺ کی خصوصیت تھی۔
ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔
یا اس کی طرف سے جس نے وصیت کی ہو۔


اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔
کہ آپﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تو ا س میں وہ لوگ بھی تھے۔
جو وفات پا چکے تھے۔
اور ایک کثیر تعداد وہ تھی۔
جو آپﷺ کی رحلت کے بعد پیدا ہوئی۔
لیکن اس سے استدلال صحیح نہیں۔
کیونکہ امت کی طرف سے قربانی کرنا نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔
جس پر دوسروں کے لئے عمل کرنا جائز نہیں۔
جیسا کہ اس سے قبل (حدیث۔
2791 کے فوائد میں)
وضاحت کی گئی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2792