سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا -- کتاب: قربانی کے مسائل
4. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَايَا
باب: کس قسم کا جانور قربانی میں بہتر ہوتا ہے؟
حدیث نمبر: 2793
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وَهْيبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحَرَ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا، وَضَحَّى بِالْمَدِينَةِ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی جن کا رنگ سیاہ اور سفید تھا (یعنی ابلق تھے سفید کھال کے اندر سیاہ دھاریاں تھیں)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 24 (1547)، 25 (1548)، 27 (1551)، 119 (1715)، الجہاد 104 (2951)، 126 (2986)، صحیح مسلم/صلاة المسافرین 1 (690)، سنن النسائی/الضحایا 13 (4392)، وقد مضی ہذا الحدیث برقم (1796)، (تحفة الأشراف: 947) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3155  
´اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا آپ اپنا پاؤں اس کے پٹھے پر رکھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3155]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے لیکن دوسرا شخص بھی ذبح کرسکتا ہےجیسے کی حجۃالوداع میں رسول اللہ ﷺ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ کی طرف سے قربانی دی۔
انھیں تب معلوم ہوا گوشت ان کے پاس پہنچا۔ (دیکھیےحدیث: 2981)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3155   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1160  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے، چتکبرے، سینگوں والے قربانی کرتے تھے اور «بسم الله» پڑھتے اور تکبیر کہتے اور ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں مبارک رکھتے تھے اور ایک روایت میں آیا ہے کہ ان دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ خوب موٹے تازے تھے اور ابوعوانہ کی صحیح میں «سمينين» «سین» کی جگہ «ثاء» ‏‏‏‏ ہے۔ یعنی وہ قیمتی تھے اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بسم الله والله أكبر» کہا۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سینگوں والا مینڈھا ہو جس کے پاؤں کالے ہوں اور پیٹ کا حصہ بھی سیاہ ہو اور آنکھیں بھی سیاہ ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قربانی کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ چھری تیز کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری کو پکڑا اور مینڈھے کو پچھاڑا۔ پھر اے ذبح کیا اور فرمایا اللہ کے نام سے۔ اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور امت محمد (کی طرف) سے قبول فرما۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1160»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحج، باب من نحر هدية بيده، حديث:1712، حديث:5553، 5558 وغيره، وحديث عائشة: أخرجه مسلم، الأضاحي، حديث:1967.»
تشریح:
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موٹے تازے جانور کی قربانی محبوب تھی۔
2.قربانی سے پہلے چھری خوب تیز کر لینی چاہیے۔
3. جانور کو پہلو کے بل لٹا کر ذبح کرنا چاہیے۔
4. ذبح سے پہلے مسنون دعا اور تکبیر پڑھنی چاہیے۔
مذکورہ حدیث میں مذکور دعا کے علاوہ بھی ایک دعا ذبح کرتے وقت پڑھنا ثابت ہے۔
اور وہ دعا یہ ہے: «إِنِّي وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلأَرضَ عَلٰی مِلَّۃِ إِبْرَاھِیمَ حَنِیفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ‘ إِنَّ صَلاَتِي وَ نُسُکِي وَ مَحْیَايَ وَ مَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ اَللّٰھُمَّ! مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّ أُمَّتِہِ بِسْمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ» (مسند أحمد:۳ /۳۷۵‘ وسنن أبي داود‘ الضحایا‘ باب ما یستحب من الضحایا‘ حدیث: ۲۷۹۵) دعا میں مذکور الفاظ: «عَنْ مُحَمَّدٍ وَ أُمَّتِہِ» کے بجائے اپنا اور اہل و عیال کا نام لے یا جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے۔
5. اہل خانہ کی طرف سے ایک جانور قربانی کرنے سے سنت ادا ہو جاتی ہے۔
6. قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنی چاہیے گو اس میں نیابت بھی جائزہے۔
7.میت کی طرف سے قربانی کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی عمل سے استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔
دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۴ /۳۵۴) علاوہ ازیں خیرالقرون (صحابہ و تابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
صرف ایک نقطۂ نظر سے اس کا جواز ہو سکتا ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے‘ یعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابوداود ‘ اردو‘ طبع دارالسلام‘ حدیث: ۲۷۹۰ کے فوائد و مسائل)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1160   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2793  
´کس قسم کا جانور قربانی میں بہتر ہوتا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی جن کا رنگ سیاہ اور سفید تھا (یعنی ابلق تھے سفید کھال کے اندر سیاہ دھاریاں تھیں)۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2793]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ ﷺ کی معیشت بقدر گزران اور قناعت کی تھی۔
جو کچھ بھی ہوتا بالعموم صدقہ کردیاکرتے تھے مگر اسکے باوجود آپﷺ قربانی کا اہتمام کرتے۔
اور اسی طرح جہاد کےلئے بھی اسلحہ حاضر رکھا کرتے تھے۔


قربانی کے موقع پرروپیہ پیسہ صدقہ کرنے کی بجائے جانور قربان کرنا ہی مشروع ومطلوب ہے۔
جانور کی قیمت صدقہ کرنا قربانی کا بدل ہرگز نہیں ہوسکتا۔


اونٹ کو نحر کیاجاتا ہے۔
یعنی حلق کے آخر میں ہنسلی کی ہڈی کے ساتھ نرم حصے میں چھرا گھونپا جاتا ہے۔
اونٹ کو ذبح کرنے کا قرآن وسنت کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کھڑا کرکے ذبح کیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ)(الحج۔
36)
اور قربانی کے اونٹ بھی جنھیں ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر بنایا ہے۔
تمہارے لئےان میں بھلائی ہے۔
لہذا(نحر کے وقت) جب وہ پائوں باندھے کھڑے ہوں تو تم ان پراللہ کا نام لو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ صواف کی تفسیر میں فرماتے کے اس کے معنی(قیاما) کے ہیں۔
یعنی کھڑے ہونے کی حالت میں اونٹ کونحر کیاجائے۔
(صحیح البخاری۔
الحج باب نحر البدن قائمۃ)
علاوہ ازیں اونٹ کی بایئں ٹانگ کو باندھ لیاجائے۔
نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اونٹ کواس حالت میں نحر کیا کرتے تھے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اونٹ کو اسی حالت میں نحر کرتے تھے۔
کہ بائاں پائوں بندھا ہوتا۔
او ر وہ باقی ماندہ تین پائوں پر کھڑا ہوتا۔
(سنن ابی دائود۔
المناسک۔
باب کیف تنحر البدن۔
حدیث 1767)
حضرت زیاد بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کے پاس تشریف لائے۔
جس نے ذبح کرنے کے لئے اپنی اونٹنی کو بٹھایا ہوا تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا اسے کھڑا کر کے باندھ لو۔
یہی حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی سنت ہے۔
(صحیح البخاری۔
الحج باب النحر الابل مفیدۃ۔
حدیث 1713)
اونٹ کے علاوہ دیگر جانوروں کو ذبح کیا جاتاہے۔
یعنی ان کا حلق ااور ساتھ کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2793