سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا -- کتاب: قربانی کے مسائل
17. باب فِي الْمُبَالَغَةِ فِي الذَّبْحِ
باب: ذبح میں غلو اور مبالغہ آمیزی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2826
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، وَالْحَسَنُ بْنُ عِيسَى مَوْلَى ابن المبارك، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، زَادَ ابْنُ عِيسَى، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَا: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرِيطَةِ الشَّيْطَانِ، زَادَ ابْنُ عِيسَى فِي حَدِيثِهِ وَهِيَ الَّتِي تُذْبَحُ فَيُقْطَعُ الْجِلْدُ وَلَا تُفْرَى الأَوْدَاجُ، ثُمَّ تُتْرَكُ حَتَّى تَمُوتَ.
عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «شريطة الشيطان» سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ ابن عیسیٰ کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے: اور وہ یہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو اس کی کھال تو کاٹ دی جائے لیکن رگیں نہ کاٹی جائیں، پھر اسی طرح اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ (تڑپ تڑپ کر) مر جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6173)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/289) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عمرو بن عبد اللہ بن الاسوار ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: «شریط» کے معنی نشتر مارنے کے ہیں، یہ «شریط» حجامت سے ماخوذ ہے، اسی وجہ سے اسے «شریط» کہا گیا ہے، اور شیطان کی طرف اس کی نسبت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ شیطان ہی اسے اس عمل پر اکساتا ہے، اس میں جانور کو تکلیف ہوتی ہے، خون جلدی نہیں نکلتا اور اس کی جان تڑپ تڑپ کر نکلتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2826  
´ذبح میں غلو اور مبالغہ آمیزی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «شريطة الشيطان» سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ ابن عیسیٰ کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے: اور وہ یہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو اس کی کھال تو کاٹ دی جائے لیکن رگیں نہ کاٹی جائیں، پھر اسی طرح اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ (تڑپ تڑپ کر) مر جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2826]
فوائد ومسائل:

سندا روایت ضعیف ہے۔
لیکن مسئلہ اس طرح ہے کہ اس کا جانور حلال نہ ہوگا۔


حضرت شداد بن اوسرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کیں۔
آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قرار دیا ہے۔
لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے کرو۔
اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، ذبح کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرے۔
اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔
(صحیح مسلم الصید والذبائع باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ حدیث 1955) علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ خود بھی ذبح کرنے سے قبل چھری کو تیز کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔
حدیث کے الفاظ نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن شريطةِ الشيطانِ رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے ذبیحہ سے منع فرمایا ہے۔
میں مذکور ذبیحہ جانور سے مراد ایسا جانور ہے۔
جس کا ذبح کرتے وقت زرا سا حلق کاٹ دیا۔
پوری رگیں نہ کاٹیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
جاہلیت کے زمانے میں مشرک ایسا ہی کرتے۔
چونکہ شیطان نے ان کو بھڑکایا تھا۔
اس لئے ایسے ذبیحہ کو شیطا ن کا ذبیحہ فرمایا۔
اور اس کے ایک معنی ابن عیسیٰ نے بھی بیان فرمائے ہیں۔
جو کہ حدیث میں مذکور ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2826