سنن ابي داود
كِتَاب الصَّيْدِ -- کتاب: شکار کے احکام و مسائل
2. باب فِي الصَّيْدِ
باب: شکار کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2848
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: إِنَّا نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ، فَقَالَ لِي:" إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، وَإِنْ قَتَلَ إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ فَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ان کتوں سے شکار کرتے ہیں (آپ کیا فرماتے ہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑو تو وہ جو شکار تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں انہیں کھاؤ گرچہ وہ انہیں مار ڈالیں سوائے ان کے جنہیں کتا کھا لے، اگر کتا اس میں سے کھا لے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ الصید 7 (5483)، 10 (5487)، صحیح مسلم/ الصید 1 (1929)، سنن ابن ماجہ/ الصید 3 (3208)، (تحفة الأشراف: 9855)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/258، 377) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3208  
´کتوں کے کیے ہوئے شکار کا حکم۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کتوں سے شکار کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سدھائے ہوئے کتوں کو «بسم الله» کہہ کر چھوڑو، تو ان کے اس شکار کو کھاؤ جو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں، چاہے انہیں قتل کر دیا ہو، سوائے اس کے کہ کتے نے اس میں سے کھا لیا ہو، اگر کتے نے کھا لیا تو مت کھاؤ، اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کتے نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو، اور اگر اس سدھائے ہوئے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی شریک ہو گئے ہوں تو بھی مت کھاؤ ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن من۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3208]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سدھایا ہوا کتا جب تکبیر پڑھ کر چھوڑا جائے تو اس کا مارا ہوا جانور حلال ہے۔

(2)
اگر کتا شکار میں سے خود کچھ کھالے تو اس جانور کا باقی حصہ حرام ہے وہ بھی کتے ہی کو کھلا دینا چاہیے۔

(3)
اگر جانور کے شکار میں دوکتے شریک ہیں ایک پر تکبیر پڑھی گئی ہے دوسرے پر نہیں پڑھی گئی ہے تب بھی وہ حرام ہے کیونکہ ممکن ہےاسے دوسرے کتے نے مارا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3208   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1148  
´شکار اور ذبائح کا بیان`
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جب تو اپنا شکاری کتا جانور کے شکار کے لیے چھوڑے تو اس پر اللہ کا نام پڑھ لیا کرو۔ ( «بسم الله» پڑھ لیا کرو) پھر اگر وہ شکار کو تمہارے لئے روک لے اور تو اسے زندہ پا لے تو اسے ذبح کر لو اور اگر تو شکار کو مردہ حالت میں پائے اور کتے نے ابھی تک اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو تم اسے کھا سکتے ہو اور اگر تو اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کوئی کتا بھی پائے اور جانور مردہ حالت میں ملے تو پھر اسے نہ کھا کیونکہ تجھے معلوم نہیں کہ ان دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے اور اگر تو اپنا تیر چھوڑے تو اس پر «بسم الله» پڑھ۔ پھر اگر شکار تیری نظروں سے ایک روز تک اوجھل رہے اور اس میں تیرے تیر کے سوا دوسرا کوئی زخم کا نشان نہ ہو تو پھر اسے تو کھا لے۔ اگر تیری طبیعت کھانے کی طرف مائل ہو اور اگر شکار کو پانی میں ڈوب کر مرا ہوا پائے تو اسے نہ کھا۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1148»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الذبائح والصيد، باب التسمية علي الصيد، حديث:5475، ومسلم، الصيد والذبائح، باب الصيد بلكلاب المعلمة والرمي، حديث:1929.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے کے لیے یا منافع حاصل کرنے کے لیے شکار کرنا جائز ہے۔
2. شکار شکاری کتے سے کیا جائے یا شکاری پرندوں سے، سب جائز ہے اور ان کا کھانا حلال ہے۔
اس کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ ضرور پڑھی جائے۔
دوسری یہ کہ کتا تربیت یافتہ‘ یعنی سدھایا ہوا ہو۔
3. سدھایا ہوا کتا اگر اس شکار میں سے کچھ کھا لے تو شکار حرام ہوجاتا ہے‘ اسے کھانا جائز نہیں رہتا۔
4.شکار کردہ جانور صحیح سالم حالت میں ہے اور کتے نے اس میں سے کچھ نہیں کھایا تو اسے کھانا جائز ہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اگر کتے نے شکار اپنے دانتوں سے پکڑا ہے اور وہ مر گیا ہے تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر کتے کے جسم کی ضرب سے مرے تو حرام ہے۔
5. اگر وہ شکار آدمی کے پہنچنے تک بقید حیات ہو تو اسے ذبح کرنا چاہیے اور اگر مر چکا ہو تو اسی طرح کھانا حلال ہے۔
6. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شکاری کتے کو مالک نے خود بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا ہو۔
اگر ازخود شکار پر ٹوٹ پڑا اور شکار مار بھی لیا تو ایسا شکار حلال نہیں ہوگا۔
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
مگر ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ محض کتے کا سدھایا ہوا ہونا شرط ہے‘ قصد و ارادہ سے چھوڑنا شرط نہیں۔
7. اسی طرح اس حدیث سے شکار کی دوسری چیز نیزہ اور تیر سے شکار کرنا بھی ثابت ہے۔
8.تیر چھوڑتے وقت بھی اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ بسم اللہ کہنا شکار کے لیے واجب ہے‘ البتہ اگر بھول کر بسم اللہ نہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ رائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ اور ایک روایت کی رو سے امام احمد رحمہ اللہ اور صحابۂ کرام میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ ہے کہ دیدہ و دانستہ اور عمداً بسم اللہ چھوڑنے کی صورت میں بھی ایسے شکار کا کھانا حلال ہے۔
ان کے نزدیک ذبح یا شکار کے وقت بسم اللہ پڑھنا سنت ہے فرض نہیں۔
اور ظاہریہ کی رائے تو یہ ہے کہ متروک التسمیۃ شکار کا کھانا بہرصورت حرام ہے۔
9. راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذبیحہ جس پر یقین ہو کہ اللہ کا نام عمداً نہیں لیا گیا اسے نہ کھایا جائے اور شک کی صورت میں‘ اگر ذبح کرنے والا پکا مسلمان ہو تو، بسم اللہ پڑھ کر کھا لینا چاہیے۔
اور جو پرندہ وغیرہ تیر کی ضرب کھا کر پانی میں جا گرے تو اسے نہ کھایا جائے‘ اس لیے کہ اس کی موت واقع ہونے میں شک پیدا ہوگیا ہے کہ آیا وہ تیر لگنے سے مرا ہے یا پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عدی بن حاتم طائی۔
باپ کی طرح نہایت سخی تھے۔
۷ہجری شعبان کے مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
جب عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہوئے تو یہ اپنی قوم سمیت اسلام کی حقانیت و صداقت پر ثابت قدم رہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو پہلی زکاۃ پہنچی وہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ اور ان کی قوم کی زکاۃ تھی۔
فتح مدائن میں حاضر تھے۔
لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔
جنگ جمل کے موقع پر ان کی آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔
سخاوت اور جود و کرم میں ان کی مثالیں بڑی مشہور و معروف ہیں۔
ایک سو بیس برس زندگی پائی اور ۶۸ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1148   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1465  
´کتے کا کون سا شکار کھایا جائے اور کون سا نہ کھایا جائے؟`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ «معراض» (ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جو (ہتھیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1465]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پرچھوڑا جائے تودوڑتا ہوا جائے،
جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔
اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے:

(1)
سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔

(2)
کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔

(3)
اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکارکر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں،
یہی جمہور علماء کا قول ہے۔

(4) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔

(5) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا۔

(6) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2848  
´شکار کرنے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ان کتوں سے شکار کرتے ہیں (آپ کیا فرماتے ہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑو تو وہ جو شکار تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں انہیں کھاؤ گرچہ وہ انہیں مار ڈالیں سوائے ان کے جنہیں کتا کھا لے، اگر کتا اس میں سے کھا لے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2848]
فوائد ومسائل:

کتے سے شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔


شرط یہ ہے کہ کتا سدھایا ہوا ہو۔
اور اپنے مالک کی ہدایات پر کما حقہ عمل کرتا ہو۔
یعنی اگر چھوڑے اور دوڑائے تو دوڑ جائے۔
اور اگر واپس بلائے تو واپس آجائے۔


اور پھر یہ بھی ہے کہ مالک کے چھوڑنے پر شکار کرے۔
اگر از خود شکار مار لایا تو حلال نہ ہوگا۔


کتا چھوڑتے ہوئے بسم اللہ واللہ اکبر پڑھے۔
اگر بھول جائے تو معاف ہے۔
اور شکارحلال ہے۔
کیونکہ اللہ کا نام ہر مسلمان کے دل میں ہے۔
البتہ عمدا چھوڑ دینے سے شکار حلال نہ ہوگا۔

کتا اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ مالک کے لئے روک رکھے اور اگر کھایا ہو تو حلال نہ ہوگا۔


اگر شکار زندہ ہو تو بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کراسے ذبح کرے۔


اگر کوئی اور کتا ان کتوں کے ساتھ مل گیا مل گیا ہو اور معلوم نہ ہو کس نے مارا ہے۔
یا نہ معلوم دوسرے کتے پر بھی بسم اللہ پڑھی گئی ہے یا نہیں۔
تو حلال نہ ہوگا۔
اگر معلوم ہو جائے کہ دوسرے پر بھی بسم اللہ پڑھی گئی ہے۔
تو بلا بلاشبہ حلال ہوگا۔


بھالے سے بھی شکار حلال اور جائز ہے۔
بشرط یہ کہ بسم اللہ پڑھ کر پھینکے اور دھار کی جانب سے شکار کو لگے اور اسے ذخمی کردے۔
اگر چوڑائی کی طرف سے لگا ہو اور شکار مر گیا ہو تو حلال نہ ہوگا۔


بندوق کی گولی اور چھرہ بھی بعض علماء (امام شوکانی سید سابق اورعلامہ یوسف قرضاوی وغیرہ۔
)
کےنزدیک اسی حکم میں ہے۔
یعنی ان کا شکار بھی حلال ہے۔
کیونکہ ان کے خیال میں بندوق کی گولی بھی شکار کو پھاڑ دیتی ہے اور خون نکال دیتی ہے۔

10۔
لیکن غلیل سے مارا ہوا شکار اس کی چوٹ سے مر جائے تو حلال نہیں کیونکہ وہ چیرتی ہے۔
نہ خون بہاتی ہے۔
بلکہ وہ واضح طور پر غلیلے کی چوٹ سے مرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2848