سنن ابي داود
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِيمَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَصِيَّةِ
باب: وصیت کرنے کی تاکید کا بیان۔
حدیث نمبر: 2862
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الوصایا 1 (1627)، (تحفة الأشراف:7944، 8176)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوصایا 1 (2738)، سنن الترمذی/الجنائز 5 (974)، والوصایا 3 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3645)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 2 (2699)، موطا امام مالک/الوصایا 1 (1)، مسند احمد (2/4، 10، 34، 50، 57،80، 113)، سنن الدارمی/الوصایا 1 (3219) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجبی حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض و امانت وغیرہ تو ایسے شخص پر وصیت واجب ہے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 388  
´وصیت کا وجوب منسوخ ہے`
«. . . 249- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته عنده مكتوبة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے پاس وصیت والی کوئی چیز ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے پاس لکھنے (یا لکھوانے) کے بغیر دو راتیں بھی گزارے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 388]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2738، ومسلم 1627، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ اس حدیث سے وصیت کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسری صحیح حدیث نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فلا وصیة لوارث» پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔ [سنن الترمذي: 2120 وسنده حسن وقال الترمذي: هذا حديث حسن ورواه ابوداود: 2870 وابن ماجه: 2713]
➋ جو شخص وارثوں کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں ثلث (ایک تہائی) میں سے وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لکھنے میں جلدی کرے۔ اس جلدی کے مستحب ہونے پر اجماع ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/292]
➌ قرآن مجید میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں وصیت کا حکم ہے جسے «لا وصية لوارث» والی حدیث نے منسوخ کردیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حدیث کے ساتھ نسخِ قرآن جائز ہے۔
➍ اگر کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کے بارے میں وصیت لکھ دے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 249   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2699  
´وصیت کی ترغیب۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2699]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وصیت ایسی چیز ہے کہ ا س کا فائدہ اور ثواب مرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، جب وصیت پر عمل کیا جاتا ہے۔

(2)
انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، ممکن ہے بندے کو اس حال میں موت آئے کہ اسے وصیت کرنے کا موقع نہ ملے، اس لیے بہتر ہے کہ وصیت ہر وقت تیار رکھی جائے۔

(3)
پہلے سے وصیت لکھ رکھنے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان اس میں حسب خواہش تبدیلی کرسکتا ہے۔

(4)
قرض اور امانت وغیرہ کی تفصیل ہمیشہ لکھ کر رکھنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2699   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 818  
´وصیتوں کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کو وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر دو راتیں بھی اسی حالت میں گزار دے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 818»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوصايا، باب الوصايا....، حديث:2738، ومسلم، الوصية، حديث:1627.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وصیت ہر وقت تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔
2.آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا ہر ایک کے لیے ضروری اور لازمی تھا لیکن جب میراث کی آیت نازل ہوئی تو یہ وصیت ختم ہوگئی‘ یعنی جن کے حصے قرآن میں متعین و مقرر کر دیے گئے ہیں ان کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں‘ البتہ میراث کے علاوہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے‘ مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کی میراث ختم ہے مگر اس کی تعلیم و تربیت‘ نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے تہائی مال کی وصیت کی جا سکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 818   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2118  
´وصیت کی ترغیب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو یہ اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2118]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا لازمی اور ضروری تھا،
لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ورثاء کے حصے متعین ہوگئے اس لیے ورثاء سے متعلق وصیت کا سلسلہ بند ہوگیا،
البتہ ان کے علاوہ کے لیے تہائی مال میں وصیت کی جا سکتی ہے،
اور یہ وصیت اس حدیث کی روشنی میں تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2118   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2862  
´وصیت کرنے کی تاکید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2862]
فوائد ومسائل:
حدیث میں (يبيت ليلتين)سے مراد یہ ہے کہ اسے وصیت لکھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
تحدید مراد نہیں ہے۔
کیوکہ مسند ابی عوانۃ اور السنن کبریٰ للبیقی میں (ليلة او ليلتين)ایک ر ات یا دو راتوں کا زکر ہے۔
صحیح مسلم اور سنن نسائی میں (ثلاث لیال) تین راتوں کازکر بھی ملتاہے۔
بہرحال انسان کو اپنی موت سے کبھی غافل نہیں ہوناچاہیے۔
نہ معلوم کس وقت بلاوا آجائے۔
لہذا اگر کوئی قرض ہو یا امانت یا کوئی اور اہم معاملہ تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاں لکھ رکھے۔
تاکہ وارثوں کو اس کی تنفیذ میں آسانی رہے۔
اورحقوق کے معاملے میں مرنے والے پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے۔
اس صورت میں یہ امرواجب ہے۔
لیکن اگرکوئی حق واجب نہ ہو تو وصیت کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔
جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہاہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2862