سنن ابي داود
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
2. باب مَا جَاءَ فِيمَا لاَ يَجُوزُ لِلْمُوصِي فِي مَالِهِ
باب: وصیت کرنے والے کے لیے جو چیز ناجائز ہے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 2864
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضَ مَرَضًا، قَالَ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ بِمَكَّةَ، ثُمَّ اتَّفَقَا أَشْفَى فِيهِ فَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَبِالشَّطْرِ قَالَ: لَا، قَالَ: فَبِالثُّلُثِ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةُ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي؟ قَالَ: إِنَّكَ إِنْ تُخَلَّفْ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ لَا تَزْدَادُ بِهِ إِلَّا رِفْعَةً وَدَرَجَةً لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ"، لَكِنَ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ.
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے: مکہ میں، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پوچھا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا: تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تہائی مال (دے سکتے ہو) اور تہائی مال بھی بہت ہے، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور جو چیز بھی تم اللہ کی رضا مندی کے لیے خرچ کرو گے اس کا ثواب تمہیں ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اٹھا کر دو گے تو اس کا ثواب بھی پاؤ گے ۱؎، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے جائیں گے، اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے مکہ ہی میں رہ جاؤں گا، جب کہ صحابہ مکہ چھوڑ کر ہجرت کر چکے تھے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم پیچھے رہ گئے، اور میرے بعد میرے غائبانہ میں بھی نیک عمل اللہ کی رضا مندی کے لیے کرتے رہے تو تمہارا درجہ بلند رہے گا، امید ہے کہ تم زندہ رہو گے، یہاں تک کہ تمہاری ذات سے کچھ اقوام کو فائدہ پہنچے گا اور کچھ کو نقصان و تکلیف ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ: اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت مکمل فرما، اور انہیں ان کے ایڑیوں کے بل پیچھے کی طرف نہ پلٹا، لیکن بیچارے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنج و افسوس کا اظہار فرماتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال فرما گئے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 36 (1295)، الوصایا 2 (2742)، 3 (2744)، مناقب الأنصار 49 (3936)، المغازي 77 (4395)، النفقات 1 (5354)، المرضی 13 (5659)، 16 (5668)، الدعوات 43 (6373)، الفرائض 6 (6733)، صحیح مسلم/الوصایا 2 (1628)، سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، الوصایا 1 (2117)، سنن النسائی/الوصایا 3 (3628)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 5 (2708)، (تحفة الأشراف:3890)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الوصایا 3 (4)، مسند احمد (1/168، 172، 176، 179)، دی/ الوصایا 7 (3238) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وارثوں کا حق فقیروں پر مقدم ہے، اور تہائی سے زیادہ وصیت درست نہیں، اور بیوی بچوں پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے، بشرطیکہ اسے اللہ تعالی کا حکم سمجھ کر خرچ کرے۔
۲؎: چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ اس کے بعد (۴۵) سال تک زندہ رہے، اور جنگ قادسیہ وغیرہ میں مسلم فوج کے قائد و سربراہ رہے اور رب العزت نے ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے نوازا، جب کہ مشرکین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
۳؎: سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رنج و افسوس کا اظہار اس لئے کیا کہ ان کا انتقال مکہ میں ہوا، اور مکہ ہی سے وہ ہجرت کر کے گئے تھے، اگر وہ مکہ کے علاوہ دوسری سرزمین میں وفات پاتے تو ان کا مقام و مرتبہ کچھ اور ہوتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 389  
´اپنے تمام مال میں سے صرف ثلث (ایک تہائی) دینا ہی جائز ہے`
«. . . ثم قال: الثلث والثلث كثير أو كبير. إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله. إلا أجرت بها، حتى ما تجعل فى فى امرأتك . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرا حصہ صدقہ کر لو اور تیسرا حصہ بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے وارثوں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ امیر ہوں تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ غریب ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں تم اﷲ کی رضا مندی کے لیے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا حتی کہ تم اپنی بیوی کو جو نوالہ کھلاتے ہو توا س کا بھی اجر ملے گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 389]

تخریج الحدیث:
[واخرجه البخاري 1295، من حديث مالك به ورواه مسلم 1628، من حديث الزهري به من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه
➊ ورثاء کے ہوتے ہوئے وصیت میں (صدقہ ہو یا ہبہ) اپنے تمام مال میں سے صرف ثلث (ایک تہائی) دینا ہی جائز ہے۔ اس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے تاہم کوئی وارث نہ ہو تو بعض علماء کے نزدیک سارا مال صدقہ کرنا جائز ہے۔
➋ اس روایت میں بعض راویوں نے عام الفتح یعنی حجۃ الوداع کے بدلے فتح مکہ کا سال روایت کیا ہے لیکن راجح یہی ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
➌ مریض موت کے وقت جو بھی صدقہ، ہبہ یا غلام آزاد کرے گا تو اس کے ترکے کے ایک تہائی سے ہی ادا ہو گا۔
➍ قرآن مجید کی تخصیص صحیح حدیث سے جائز ہے کیونکہ اس حدیث نے وصیت کے عمومی حکم کو مخصوص کر دیا ہے۔
➎ بعض علماء نے کہا ہے کہ وارثوں کی رضا مندی کے ساتھ ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے۔
➏ اگر مرنے والا غریب ہے تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک تہائی کی بھی وصیت نہ کرے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے لئے مال چھوڑ جائے تاکہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں۔
➐ اگر مفضول بیمار ہو تو سنت یہی ہے کہ افضل آدمی بھی اس کی عیادت (بیمار پرسی) کے لئے اس کے پاس جائے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من عاد مريضًا خاض فى الرحمة حتي إذا قعد استقرفيها۔» جو شخص کسی مریض کی بیمارپرسی کرتا ہے تو رحمت (ہی رحمت) میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہ بیٹھتا ہے تو (رحمت) میں قرار پکڑ لیتا ہے۔ [الادب المفرد للبخاري: 522 و سنده حسن وله طريق آخر عند أحمد 3٠4/3 وابن حبان فى صحيحه: 711 والحاكم 35٠/1 والبزار: 775 وسنده حسن]
➑ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جو چیز اللہ کی رضا مندی کے لئے خرچ کی جائے تو اس کا اجر ملے گا۔ إن شاء اللہ
➒ اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا اور ان کی حسب استطاعت مدد کرنا بھی نیک کاموں اور صدقات میں سے ہے جس کا اجر ان شاء اللہ ملے گا۔
➓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی کیونکہ آپ کا یہ فرمانا: تمہاری وجہ سے ایک قوم کو فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کو نقصان ہو گا۔ غیب کی خبر ہے جو کہ من و عن پوری ہوئی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہے اور ایران آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا اور کفار کو نقصان ہوا۔ غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ خبر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔ والحمدللہ
اس حدیث سے اور بھی بہت سے فائدے معلوم ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ مہاجر ہجرت کے بعد اپنے آبائی علاقے میں دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا۔ مومن بھائی کی وفات پر اس کا مرثیہ کہنا یا لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس مرثیے میں غلو، مبالغہ اور جھوٹ شامل نہ ہو۔
نیز مصیبت پر تاسف اور اظہار ہمدردی کرنا مسنون ہے اور یہ بھی کہ اصل مصیبت دین اور اعمال کا نقصان ہے۔ «وغيرذلك»
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 68   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 185  
´دن و رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں`
«. . . 267- مالك عن عمه أبى سهيل بن مالك عن أبيه أنه سمع طلحة بن عبيد الله يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد، ثائر الرأس، يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يسأل عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خمس صلوات فى اليوم والليلة، فقال: هل على غيرهن؟ قال: لا، إلا أن تطوع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وصيام رمضان، قال: هل على غيره؟ قال: لا، إلا أن تطوع، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل على غيرها؟ قال: لا، إلا أن تطوع، قال: فأدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفلح إن صدق. . . .»
. . . سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان (پانچوں) کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نوافل پڑھو۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: کیا اس (زکوٰۃ) کے علاوہ اور بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں الا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی صدقے دو۔، پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے پیٹھ پھیر کر روانہ ہوا: اللہ کی قسم! میں ان پر نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 185]

تخریج الحدیث: [واخراجه البخاري 56، ومسلم 11، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا دارومدار عقائد کے بعد اعمال اور فرائض کی ادائیگی پر ہے تاہم سنن ونوافل کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئے کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ جب فرائض میں کمی ہوگی تو سنن ونوافل کام آئیں گے۔
➋ اہلِ نجد میں سے آدمی کون تھا؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ ابن بطال وابن العجمی وغیرہما کا خیال ہے کہ وہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ [شرح ابن بطال 1/97 والتوضيح لمبهمات الجامع الصحيح لابن العجمي، قلمي ص13،]
اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ دیکھئے تفقہ: 6
➌ اسلام فرائض واعمال کا نام ہے معلوم ہوا کہ مرجئه کا عقیدہ باطل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔
➍ اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے جب کہ دوسری احادیث سے حج کا فرض ہونا ثابت ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر ایک دلیل میں کوئی مسئلہ مذکور نہیں اور دوسری دلیل میں مسئلہ مذکور ہے تو اسی کا اعتبار ہوگا، اس حالت میں عدمِ ذکر کو عدمِ شئی کی دلیل نہیں بنایا جائے گا۔
بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے۔ اس کی تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درج ذیل قول سے بھی ہوتی ہے:
«ليس الوتر بحتم كالصلوة ولكنه سنة فلا تدعوه»
وتر (فرض) نماز کی طرح ضروری (واجب) نہیں ہے، لیکن یہ سنت ہے اسے نہ چھوڑو۔ [مسند أحمد 1/107 ح842 وسنده حسن،]
ایک شخص ابومحمد نامی نے کہا: کہ وتر واجب ہے تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ (بدری صحابی) نے فرمایا: کذب ابومحمد ابومحمد نے جھوٹ (غلط) کہا ہے۔ [سنن ابي داؤد: 1420، وسنده حسن، مؤطا امام مالك 123/1، وصحيحه ابن حبان، الموارد 252، 253]
➏ عربی زبان میں بلند وسخت جگہ کو نَجد اور پست اور نچلی زمین کو غَور کہتے ہیں۔ دیکھئے القاموس الوحید [ص 1611، 1189]
عرب کے علاقے یں بہت سے نجد ہیں۔ مثلاً نجدبرق، نجدخال، نجد عفر، نجد کبکب اور نجد مریع [ديكهئے معجم البلدان 262/5،]
تہامہ سے عراق کی زمین تک نجد ہے۔ [لسان العرب 413/3،]
جن احادیث میں قرن الشیطان، زلزلوں اور فتنوں والے نجد کا ذکر ہے، ان سے مراد نجد العراق ہے دیکھئے [اكمل البيان فى شرح حديث نجد قرن الشيطان] (از حکیم محمد اشرف سندھو) اور فتنوں کی سرزمین نجد یا عراق (از رضاءاللہ عبدالکریم)
حدیثِ ہٰذا میں جس نجدی کا ذکر ہے وہ جلیل القدر صحابی (ضمام بن ثعلبہ) رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ اوپر گزرا ہے (نمبر2) نیز دیکھئے [الاصابة ص627 ت4342]
➐ جن احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ادھر سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور ادھر سے فتنے وزلزلے ہوں گے۔ ان سے مراد عراق والا نجد ہے۔ مسند أحمد میں آیا ہے کہ (سیدنا) ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عراق کی طرف اشارہ کررہے تھے اور فرمارہے تھے: «ها، ان الفنته ها هنا، ان الفتنه ها هنا۔ ثلاث مرات۔ من حيث يطلع قرن الشيطان۔» خبردار، فتنہ ادھر سے ہے، خبردار فتنہ ادھر سے ہے۔ آپ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی۔ جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [مسند أحمد 2/143 ح6302 وسنده صحيح،
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے بارے میں کئی دفعہ برکت کی دعا فرمائی۔ کہا گیا: اور عراق کے بارے میں (دعا فرمائیں)؟ تو آپ نے فرمایا: « [إن] بھا الزلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطان۔» وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [المعجم الكبير للطبراني 12/384 ح13422، وسنده حسن]
عراق کے لفظ کے ساتھ اسی طرح کی روایت ابونعیم الاصبہانی کی کتاب «حلية الاولياء» میں بھی موجود ہے۔ [ج6 ص133، وسنده حسن]
سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ نے عراقیوں سے کہا: اے عراق والو! ہم تم سے کسی چھوٹی چیز کے بارے میں نہیں پوچھتے تو بڑی چیز کے بارے میں کس طرح پوچھ سکتے ہیں؟ میں نے اپنے ابا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: فتنہ ادھر سے آئے گا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور تم ایک دوسرے کو قئل کروگے۔۔۔ [صحيح مسلم: 50/2905، دارالسلام: 7297]
معلوم ہوا کہ نجد میں شیطان کا سینگ نکلنے سے مراد عراق والا نجد ہے لہٰذا بعض اہلِ بدعت کا نجد سے نجدِ حجاز یا نجدِ ریاض مراد لینا غلط ہے۔ ➑ نیز دیکھئے ح363
➒ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے وگرنہ آپ یہ نہ فرماتے: «أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ» ۔ تفكر جدًا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 267   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 56  
´عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 56]

تشریح:
ان جملہ احادیث میں جملہ اعمال کا دارومدار نیت پر بتلایا گیا۔ امام نووی کہتے ہیں کہ ان کی بنا پر حظ نفس بھی جب شریعت کے موافق ہو تو اس میں بھی ثواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 56   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2708  
´تہائی مال تک وصیت کرنے کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر آدھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: تو ایک تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے، تمہارا اپنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2708]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کےحقوق میں شامل ہے اور یہ بہت بڑا نیک عمل ہے
(2)
  جب انسان محسوس کرے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے تو اس وقت اسے ترکے کے تہائی حصے سے زیادہ صدقے کی وصیت نہیں کرنی چاہیے۔

(3)
اگر کوئی شخص تہائی حصے سے زیادہ کی وصیت کرکے فوت ہوجائے تو اس کی وصیت پر صرف تہائی ترکےتک عمل کیا جائے گا۔ (دیکھئے حدیث: 2345)

(4)
بہتر یہ ہے کہ تہائی مال سے کم وصیت کی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے تہائی کی اجازت دینے کے باوجود اسے زیادہ فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے۔ (دیکھئے حدیث: 2711)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2708   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2116  
´ایک تہائی مال کی وصیت کے جواز کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار پڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: دو تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: نہیں، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: ایک تہائی کی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎، تم اپن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2116]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے،
اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے،
اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہے،
البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے،
یہ بھی معلوم ہواکہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہترہے۔

2؎:
آپ ﷺ نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیاتھا وہ پوری ہوئی،
چنانچہ سعد اس مرض سے شفا یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی،
ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا،
ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق 50 ھ میں ہواتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2116   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2864  
´وصیت کرنے والے کے لیے جو چیز ناجائز ہے اس کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے: مکہ میں، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پوچھا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا: تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2864]
فوائد ومسائل:

مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
اس لئے اسے حلال ذرائع سے کمانا اور پھر جمع رکھنا کوئی معیوب نہیں، بشرط یہ کہ شرعی واجبات ادا کرتا رہے۔
مال جمع ہونے کی صورت میں ہی ایک مسلمان زکواۃ، حج، جہاد، قربانی، صدقہ، ورثہ اور وصیت جیسے احکام پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
ورنہ مدات پرعمل محال ہوگا۔
اور جن آیات وحدیث میں مال جمع کرنے کی مذمت ہے۔
وہاں حرام مال کمانے شریعت کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اس کا محض حریص بننے کی مذمت ہے۔


تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔


فقیروں کی نسبت وارثوں کا حق اولیٰ ہے۔
اور انہیں غنی چھوڑ جانا مستحب اور فقیرچھوڑ جانانا پسندیدہ ہے۔
سوائے اس کے کہ وہ توکل کے اعلیٰ مراتب پرہوں۔


واجب اخراجات اور تمام اعمال صالحہ جو راہ للہ کیے جایئں ان سب میں انسان کواجر وثواب ملتا ہے۔
اور درجات بلند ہوتے ہیں۔


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد تقریبا چوالیس برس حیات رہے۔
اور عراق انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔
مشہور اور فیصلہ کن جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے کمانڈر آپ ہی تھے۔


اس وقت واجب تھا کہ جس علاقے کے مسلمانوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی ہو وہاں قیام نہیں کرسکتے۔
اس لئے یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ سفر میں بھی وہاں موت نہ آئے۔
اور حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر صحابی تھے۔
پہلے ہجرت حبشہ ثانیہ میں حبشہ گئے وہاں سے لوٹے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔
بالاخرحجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ میں فوت ہوئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2864