سنن ابي داود
كِتَاب الْوَصَايَا -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
8. باب مَا جَاءَ فِيمَا لِوَلِيِّ الْيَتِيمِ أَنْ يَنَالَ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ
باب: یتیم کے مال سے اس کا ولی کتنا کھا سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2872
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَيْءٌ وَلِي يَتِيمٌ، قَالَ: فَقَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَادِرٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا، نہ جلد بازی دکھانا (اس کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے) نہ اس کے مال سے کما کر اپنا مال بڑھانا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الوصایا 10(3698)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 9 (2718)، (تحفة الأشراف:8681)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/186، 216) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے بقدر تم کھاؤ، نہ کہ فضول خرچی کرو، یا یہ خیال کر کے یتیم بڑا ہو جائے گا تو مال نہ مل سکے گا جلدی جلدی خرچ کر ڈالو، یا اس میں سے اپنے لئے جمع کر لو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2718  
´آیت کریمہ: «ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف» اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق یتیم کے مال سے کھائے کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے کھاؤ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2718]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یتیم کا مال کھا نا سخت گناہ ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ إِنَّ الَّذينَ يَأكُلونَ أَمولَ اليَتـمى ظُلمًا إِنَّما يَأكُلونَ فى بُطونِهِم نارً‌ا وَسَيَصلَونَ سَعيرً‌ا ﴾  (النساء4؍10)
جولوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتےہیں، وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب (جہنم کی)
آگ میں جلیں گے۔

(2)
اگر یتیم کا سرپرست مفلس ہو تو وہ یتیم کے مال سے اپنے انتہائی ضروری اخراجات پورے کرسکتا ہے لیکن تعشات اور آسائشات پر اس کا مال خرچ نہیں کرسکتا۔

(3)
مفلس آدمی کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ محنت مزدوری سے اپنے اخراجات پورے کرے اور یتیم کا مال محفوظ رکھے۔

(4)
یتیم کے مال کے ذریعے سے اپنا مال بچانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اپنا محفوظ رکھا۔
یا ذاتی ضروریات پراس کا مال خرچ کیا اور اپنا بچالیا۔

(5)
یتیم کے مال سے تجارت کرکے یتیم کو اس کا حصہ دینا(مضاربت)
درست ہے لیکن یہ درست نہیں کہ اس کے مال سے تجارت کرکے سارا نفع خود رکھ لے، یا اس کےمال کو اس طرح خرچ کرے جس طرح اپنا مال بےروک ٹوک خرچ کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2718