سنن ابي داود
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
6. باب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الْجَدِّ
باب: دادا کی میراث کا بیان۔
حدیث نمبر: 2896
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنً، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّ ابْنَ ابْنِي مَاتَ فَمَا لِي مِنْ مِيرَاثِهِ، فَقَالَ: لَكَ السُّدُسُ فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاهُ، فَقَالَ: لَكَ سُدُسٌ آخَرُ فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ السُّدُسَ الْآخَرَ طُعْمَةٌ، قَالَ قَتَادَةُ: فَلَا يَدْرُونَ مَعَ أَيِّ شَيْءٍ وَرَّثَهُ قَالَ قَتَادَةُ: أَقَلُّ شَيْءٍ وَرِثَ الْجَدُّ السُّدُسُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کی میراث سے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے چھٹا حصہ ہے، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا: تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصہ ہے، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسے بلایا اور فرمایا: یہ دوسرا «سدس» تمہارے لیے تحفہ ہے۔ قتادہ کہتے ہیں: معلوم نہیں دادا کو کس کے ساتھ سدس حصہ دار بنایا؟۔ قتادہ کہتے ہیں: سب سے کم حصہ جو دادا پاتا ہے وہ «سدس» ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفرائض 9 (2099)، (تحفة الأشراف: 10801)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/428، 436) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے رواة قتادة اور حسن مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، نیز حسن کے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سماع میں بھی سخت اختلاف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 809  
´فرائض (وراثت) کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرا پوتا وفات پا گیا ہے۔ اس کے ترکہ میراث میں میرا حصہ کتنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے چھٹا حصہ ملے گا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا تیرے لئے مزید چھٹا حصہ ہے۔ پھر جب وہ جانے لگا تو اس کو بلایا اور فرمایا کہ دوسرا چھٹا حصہ تیرے لئے رزق ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح کہا ہے اور یہ روایت حسن بصری نے بھی عمران رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے مگر یہ کہا گیا ہے کہ حسن بصری کا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 809»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الفرائض، باب ما جاء في ميراث الجد، حديث:2896، والترمذي، الفرائض، حديث:2099، والنسائي في الكبرٰي:4 /73، حديث:6337، وابن ماجه، لم أجده، وأحمد:4 /428.* قتادة عنعن والحسن لم يسمع من عمران رضي الله عنه.»
تشریح:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ مسئلہ ایسے ہی ہے کہ بالفرض اگر مرنے والے کے وارث دادا اور دو بیٹیاں ہوں تو دادا کو چھٹا حصہ‘ بیٹیوں کو دو تہائی اور بقیہ حصہ ³ بھی دادا کو ملے گا۔
راویٔ حدیث:
«حضرت حسن بصری رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ حسن بن ابو الحسن بصری انصاری۔
حسن بصری رحمہ اللہ انصار کے آزاد کردہ غلام تھے۔
ان کے والد کا نام یسار تھا۔
حسن بصری رحمہ اللہ رشد و ہدایت کے امام تھے۔
بالاتفاق ثقہ‘ فقیہ اور مشہور زمانہ فاضل تھے۔
عابد و زاہد‘ کثیر العلم‘ فصیح و بلیغ‘ حسین و جمیل‘ علوم کے جامع اور عظیم المرتبت تھے۔
تابعین کے تیسرے طبقے کے سرخیل تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام سے دو سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔
انھوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو اپنی چشم بینا سے دیکھا ہے مگر ان سے کسی حدیث کا سماع نہیں کیا۔
رجب ۱۱۰ ہجری میں نوے برس کے قریب عمر پا کر فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 809   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2099  
´دادا کی میراث کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کی میراث میں سے کتنا حصہ ملے گا؟ آپ نے فرمایا: تمہیں چھٹا حصہ ملے گا، جب وہ مڑ کر جانے لگا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: تمہیں ایک اور چھٹا حصہ ملے گا، پھر جب وہ مڑ کر جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا کر فرمایا: دوسرا چھٹا حصہ بطور خوراک ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2099]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں قتادۃ اورحسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں،
اور روایت عنعنہ سے ہے،
نیز حسن بصری کے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سماع میں بھی سخت اختلاف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2099   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2896  
´دادا کی میراث کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کی میراث سے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے چھٹا حصہ ہے، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا: تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصہ ہے، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسے بلایا اور فرمایا: یہ دوسرا «سدس» تمہارے لیے تحفہ ہے۔‏‏‏‏ قتادہ کہتے ہیں: معلوم نہیں دادا کو کس کے ساتھ سدس حصہ دار بنایا؟۔ قتادہ کہتے ہیں: سب سے کم حصہ جو دادا پاتا ہے وہ «سدس» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2896]
فوائد ومسائل:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
لیکن مسئلہ ایسے ہی ہے۔
کہ بالفرض اگر مرنے والے کے وارث دادا اور دو بیٹیاں ہوں۔
تو دادا کو چھٹا حصہ بیٹیوں کو دو تہائی 4/6 اور بقیہ 1/6 بھی دادے کو ملے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2896