سنن ابي داود
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
8. باب فِي مِيرَاثِ ذَوِي الأَرْحَامِ
باب: ذوی الارحام کی میراث کا بیان۔
حدیث نمبر: 2902
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ سُفْيَانَ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ مَوْلًى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَتَرَكَ شَيْئًا وَلَمْ يَدَعْ وَلَدًا وَلَا حَمِيمًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ سُفْيَانَ أَتَمُّ، وقَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَاهُنَا أَحَدٌ مَنْ أَهْلِ أَرْضِهِ، قَالُوا: نَعَمْ قَالَ: فَأَعْطُوهُ مِيرَاثَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام مر گیا، کچھ مال چھوڑ گیا اور کوئی وارث نہ چھوڑ ا، نہ کوئی اولاد، اور نہ کوئی عزیز، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ترکہ اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان کی روایت سب سے زیادہ کامل ہے، مسدد کی روایت میں ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہاں کوئی اس کا ہم وطن ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ترکہ اس کو دے دو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفرائض 13 (2105)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 7 (2733)، (تحفة الأشراف: 16381)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/137، 174، 181) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: وہ ترکہ آپ کا حق تھا مگر آپ نے اس کے ہم وطن پر اسے صدقہ کر دیا، امام کو ایسا اختیار ہے اس میں کوئی مصلحت ہی ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2733  
´ولاء یعنی غلام آزاد کرنے پر حاصل ہونے والے حق وراثت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گر کر مر گیا، اور کچھ مال چھوڑ گیا، اس نے کوئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی میراث اس کے گاؤں میں سے کسی کو دے دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2733]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس شخص کی وراثت کے حق دار اصل میں رسول اللہﷺ خود تھے لیکن آپ نے مال لینا پسند نہ فرمایا اور بطور صدقہ اس کی بستی کے کسی مستحق کو دے دینے کا حکم دے دیا۔ 2۔
جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کا مال بیت المال میں جمع کردیا جاتا ہے جو تمام مسلمانوں کے فائدے کے کاموں میں استعمال ہوجاتا ہے۔

(3)
بیت المال کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں لا وارث کا ترکہ اس کی بستی والوں کو دیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2733   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2902  
´ذوی الارحام کی میراث کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام مر گیا، کچھ مال چھوڑ گیا اور کوئی وارث نہ چھوڑ ا، نہ کوئی اولاد، اور نہ کوئی عزیز، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ترکہ اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان کی روایت سب سے زیادہ کامل ہے، مسدد کی روایت میں ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہاں کوئی اس کا ہم وطن ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ترکہ اس کو دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2902]
فوائد ومسائل:
چونکہ غلام کا مال بیت المال میں جانا تھا اور بیت المال میں سے مسلمان رعیت کی مصالح میں خرچ کیا جاتا ہے، اس لیے نبی ﷺ نےاس کی بستی والوں میں سے کسی کو دے دینے کافرمایا۔
کیونکہ اہل بستی کا آپس میں ایک طرح تعلق ہوتا ہی ہے۔
مگر نئی روشنی اور مادی ترقی کی چکا چوند نے بڑے شہروں میں بالخصوص یہ تعلقات معدوم کر دیے ہیں۔
العیاذ باللہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2902