سنن ابي داود
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
9. باب مِيرَاثِ ابْنِ الْمُلاَعِنَةِ
باب: لعان کی ہوئی عورت کے بچے کی میراث کا بیان۔
حدیث نمبر: 2906
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّصْرِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْمَرْأَةُ تُحْرِزُ ثَلَاثَةَ مَوَارِيثَ عَتِيقَهَا وَلَقِيطَهَا وَوَلَدَهَا الَّذِي لَاعَنَتْ عَنْهُ".
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: عورت تین شخص کی میراث سمیٹ لیتی ہے: اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی، راہ میں پائے ہوئے بچے کی، اور اپنے اس بچے کی جس کے سلسلہ میں لعان ہوا ہو (یعنی جس کے نسب سے شوہر منکر ہو گیا ہو) تو عورت اس کی وارث ہو گی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفرائض 23 (2115)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 12 (2742)، (تحفة الأشراف: 11744)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/490، 4/106) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عمر بن رؤبة ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2742  
´عورت تین آدمیوں کا ترکہ پاتی ہے۔`
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت تین میراث حاصل کرتی ہے، ایک تو اپنے اس غلام یا لونڈی کی میراث جس کو وہ آزاد کرے، دوسرے اس بچے کی میراث جس کو راستہ میں لاوارث پا کر پرورش کرے، تیسرے اس بچے کی میراث جس پر اپنے شوہر سے لعان کرے۔‏‏‏‏ محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہشام کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2742]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لقیط (گرے پڑے بچے)
کے بارے میں اختلاف ہے کہ عورت لاوارث بچے کی وارث ہوگی یا نہیں، تاہم اپنے آزاد کردہ غلام اور لعان کردہ بچے کی وہ خود ہی وارث ہوتی ہے۔
آزاد کردہ غلام کی وراثت سے متعلق دیکھئے، حدیث: 2734۔

(2)
لعان کردہ بچےسے مراد وہ بچہ ہے جسے منکوحہ عورت سے نے جنم دیا ہو لیکن اس کا خاوند اسے اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار کردے اور قاضی کے سامنے گواہوں اور قسموں کے بعد ایک دوسرے پر لعان کریں۔
اس صورت میں بچے کا تعلق اپنی ماں سے ہوتا ہے، باپ (عورت کے خاوند)
سے اس کا تعلق تسلیم نہیں کیا جاتا، اس لیے عورت اپنےاس بچے کی وارث ہوتی ہے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: 2069)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2742   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2115  
´ولاء میں سے عورتوں کی میراث کا بیان۔`
واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت تین قسم کی میراث اکٹھا کرتی ہے: اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث، اس لڑکے کی میراث جسے راستے سے اٹھا کر اس کی پرورش کی ہو، اور اس لڑکے کی میراث جس کو لعان کر کے اپنے ساتھ لے گئی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2115]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عمر بن رؤبہ ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2115   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2906  
´لعان کی ہوئی عورت کے بچے کی میراث کا بیان۔`
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: عورت تین شخص کی میراث سمیٹ لیتی ہے: اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی، راہ میں پائے ہوئے بچے کی، اور اپنے اس بچے کی جس کے سلسلہ میں لعان ہوا ہو (یعنی جس کے نسب سے شوہر منکر ہو گیا ہو) تو عورت اس کی وارث ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2906]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے۔
لقیط (گرے پڑے بچے) کے بارے میں اختلاف ہے۔
تاہم غلام اور لعان کردہ بچے کی وہ خود ہی وارث ہوتی ہے۔
لعان کردہ بچے سے مراد وہ بچا ہے۔
جسے منکوحہ عورت نے جنم دیا ہو۔
لیکن اس کا خاوند اسے اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔
اور قاضی کے سامنے گواہوں اور قسموں کے بعد ایک دوسرے پر لعان کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2906