سنن ابي داود
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
17. باب فِي الْحِلْفِ
باب: قول و قرار پر قسمیں کھانے اور حلف اٹھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2925
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، وأبو أسامة، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ وَأَيُّمَا حِلْفٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَمْ يَزِدْهُ الإِسْلَامُ إِلَّا شِدَّةً".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (زمانہ کفر کی) کوئی بھی قسم اور عہد و پیمان کا اسلام میں کچھ اعتبار نہیں، اور جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں (بھلے کام کے لیے) تھا تو اسلام نے اسے مزید مضبوطی بخشی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/فضائل الصحابة 50 (2530)، (تحفة الأشراف: 3184)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/83) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کفار عرب کا دستور تھا کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا ہم حلیف ہوتا، اور ہر ایک دوسرے کا حق و ناحق میں مدد کرتا تھا، سو فرمایا کہ اسلام میں کفر کی قسم اور عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2925  
´قول و قرار پر قسمیں کھانے اور حلف اٹھانے کا بیان۔`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (زمانہ کفر کی) کوئی بھی قسم اور عہد و پیمان کا اسلام میں کچھ اعتبار نہیں، اور جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں (بھلے کام کے لیے) تھا تو اسلام نے اسے مزید مضبوطی بخشی ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2925]
فوائد ومسائل:
اسلام نے اپنے معتقدین کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنایا ہے۔
جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ) (الحجرات:10) مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
چنانچہ واجب ہے کہ یہ ایک جان اور ایک جسم بن کر رہیں۔
انہیں اب کوئی ضرورت نہیں کہ قبل از اسلام کے انداز میں مصنوعی معاہدے کرتے پھریں۔
بلکہ یہ چیز ان کے عقیدے اور عمل کا بنیادی عنصر ہے۔
بہرحال جو معاہدات اس سے پہلے ہوچکے ہیں۔
اسلام انہیں خیر وصلاح کی بنیاد پر اور مظبوط بناتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2925