سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
4. باب فِي اتِّخَاذِ الْوَزِيرِ
باب: وزیر مقرر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2932
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِالأَمِيرِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ غَيْرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرْهُ وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جب کسی حاکم کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے سچا وزیر عنایت فرماتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے، اور اگر اسے یاد رہتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جب اللہ کسی حاکم کی بھلائی نہیں چاہتا ہے تو اس کو برا وزیر دے دیتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ یاد نہیں دلاتا، اور اگر یاد رکھتا ہے تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17478)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/البیعة 33 (4209)، مسند احمد (6/70) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ایک اصل عظیم ہے، اکثر بادشاہوں کی حکومتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں کہ ان کے وزیر اور مشیر نالائق اور نکمے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2932  
´وزیر مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جب کسی حاکم کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے سچا وزیر عنایت فرماتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے، اور اگر اسے یاد رہتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جب اللہ کسی حاکم کی بھلائی نہیں چاہتا ہے تو اس کو برا وزیر دے دیتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ یاد نہیں دلاتا، اور اگر یاد رکھتا ہے تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2932]
فوائد ومسائل:
اسلام نے امور مملکت کو چلانے کےلئے تدریجا ایک ایسا نظام بنایا جو انتظام اور انصرام کے حوالے سے ایک مثالی نمونہ تھا۔
بڑی ذمہ داریوں کی ادایئگی میں مناسب افراد کو جو صلاحیت اور اخلاص میں بہترین ہوں۔
باقاعدہ شامل کر کے ہی انتظامی معاملات صحیح طور پرچلائے جا سکتے ہیں۔
آپ ﷺ نے سرکاری مشینری کے لیے اخلاص اور خیر خواہی اور زمہ داری کو بنیادی خصوصیت قرار دیا ہے۔
جبکہ غیر ذمہ داری فرائض منصبی سے غفلت اور عدم خیر خواہی کو تباہی کا سبب بتایا ہے۔
اس لئے حاکم کےلئے ضروری ہے کہ اپنے لئے وزیر منتخب کرے۔
مگر ایسے جو ایمان وعمل اور دیانت وتقویٰ میں معتبر ہوں۔
اور ان کے حاصل ہونے پر اللہ کا شکر کرنا چاہیے۔
اور بُرے مصاحبوں سے بچنا اوراللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
تاریخ شاہد ہے کہ حکومتیں وہی کامران وکامیاب رہی ہیں۔
جن میں وزیر یا مشیر دانا بینا اور امین تھے۔
اور جن حکومتوں میں وزیر مشیر غبی اور خائن ہوئے وہ عبرت کا نشان بنیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2932