سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
5. باب فِي الْعِرَافَةِ
باب: عرافت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2933
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ،عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ:" لَهُ أَفْلَحْتَ يَا قُدَيْمُ إِنْ مُتَّ وَلَمْ تَكُنْ أَمِيرًا وَلَا كَاتِبًا وَلَا عَرِيفًا".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا: قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مر گئے تو تم نے نجات پا لی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11566)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/133) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی صالح بن یحییٰ بن مقدام ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: عریف: اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے۔
۲؎: اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2933  
´عرافت کا بیان۔`
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا: قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مر گئے تو تم نے نجات پا لی ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2933]
فوائد ومسائل:
اس باب کی دونوں حدیثیں سنداً ضعیف ہیں۔
لیکن اس حدیث سے اور اس سے اگلی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے۔
کہ عریف یا گاؤں کے چودھری ملک اور وڈیرے کا دستور قدیم سے موجود تھا۔
اور یہ لوگ ماضی کی روایات کے تحت معاشرے کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے تھے۔
لیکن بہت سی ناروا باتیں نمائندگی میں عدم توازن لوگوں کے بعض حقوق سے اغماض جیسی غلطیاں بھی ان سے سر زد ہوتی تھیں۔
اس قدیم طریق کے مطابق چل کر ذمہ داریاں نبھانا اسلام کے تصور عدل کے مطابق تو نہ تھا لیکن جب تک ایماندار تربیت یافتہ عملہ حاصل نہ ہوجاتا۔
اور ان کو ہر جگہ متعین نہ کر دیا جاتا۔
انہیں لوگوں سے کام لینا ناگزیر تھا۔
رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے خلفاء نے مختلف آبادیوں کی نمائندگی اور انتظام اور انصرام کےلئے متعدد طریق اختیار فرمائے۔
بعض اوقات قبائل میں سے مسلمان ہونے والے لوگوں کی دینی تربیت کرکے یہ ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دیں۔
بعض اوقات سابقہ عریفوں کو ہی نئی ہدایات کے ساتھ اپنے منصب پر برقرار رکھا۔
بعض اوقات اپنی تربیت یافتہ ٹیم سے لوگ بھیج دیے۔
بعض دفعہ تربیت دینے والے بھیجے۔
جو مقامی افراد کو تیار کرکے وہاں کے معاملات ان کے سپرد کرکے واپس آجاتے۔
یہ تمام طریقے صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔
علاوہ ازیں حکومتی مناصب کی ذمہ داریاں دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بڑی سخت ہیں۔
لیکن اگر ایمان اور دیانت سے یہ فرائض نبھائے جاییں تو اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2933