سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
7. باب فِي السِّعَايَةِ عَلَى الصَّدَقَةِ
باب: زکاۃ وصول کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2936
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَسْبَاطِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ایمانداری سے زکاۃ کی وصولی وغیرہ کا کام کرنے والا شخص جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کی طرح ہے، یہاں تک کہ لوٹ کر اپنے گھر آئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 18 (645)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 14 (1809)، (تحفة الأشراف: 3583)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/465، 4/143) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1809  
´زکاۃ کی وصولی کرنے والوں کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حق و انصاف کے ساتھ زکاۃ وصول کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، جب تک کہ لوٹ کر اپنے گھر واپس نہ آ جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1809]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حق کے ساتھ زکاۃ وصول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اکر اتنی مقدار وصول کرے جتنی شرعاً کسی پر واجب ہے۔
نہ زیادہ طلب کرکے زکاۃ دینے والوں پر ظلم کرے اور نہ کم وصول کر کے مستحقین کی حق تلفی کا باعث بنے۔
اسلامی سلطنت میں ایمانداری سے سرکاری ملازمت کے فرائض انجام دینا، اسلام اور اسلامی سلطنت کی خدمت ہے۔
مجاہد اسلامی سلطنت کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اسی طرح مالی معاملات کے فرائض انجاد دینے والا بھی سلطنت کی معاشی سرحدوں کی حفاظت کر کے اسے مضبوط بناتا ہے جس کی وجہ سے دشمن حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا، اس لحاظ سے اس کے فرائض بھی کچھ کم اہم نہیں۔
اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1809   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2936  
´زکاۃ وصول کرنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ایمانداری سے زکاۃ کی وصولی وغیرہ کا کام کرنے والا شخص جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کی طرح ہے، یہاں تک کہ لوٹ کر اپنے گھر آئے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2936]
فوائد ومسائل:
جہاں صدقات و زکوۃ ادا کرنے کی فضیلت اور اجر ہے۔
وہاں انھیں مسلمانوں سے اکھٹا کرکے امانت اور دیانت سے بیت المال سے جمع کرانے والا بھی صاحب فضیلت ہے۔
جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگر صالحین امت یہ کام کرتے رہے ہیں۔
اور اگر کوئی عامل واجب شرعی سے مزید طلب کرے تو حرام ہے۔
ہمارے موجودہ احوال سے جب سے حکومت نے اس مد سے دستبرداری اختیار کی ہے۔
تو مسلمان اپنے طور پر یہ وظیفہ ادا کرتے ہیں۔
اور اسلامی اشاعت کرنے والے ادارے اسی مد سے اپنا خرچ پورا کرتے ہیں۔
اسی طرح یہ رقومات حاصل کرنا اور جمع کرنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔
جب کہ نادان مسلمان ایسے افراد کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
جو یکسر غلط اور داعیان حق کی حوصلہ شکنی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرعی ذمہ داری سے یہ کام کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں باعث اجر ہے۔
ان شاء اللہ۔
البتہ جولوگ اس میں خیانت کرکے غلول (بددیانتی) جیسے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
وہ قابل نفرین ہے۔
اور آج کے دور میں ان کی کثرت ہے۔
یہ صحیح لوگوں کے لئے بھی باعث بدنامی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2936