سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
13. باب فِيمَا يَلْزَمُ الإِمَامَ مِنْ أَمْرِ الرَّعِيَّةِ وَالْحَجَبَةِ عَنْهُ
باب: امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔
حدیث نمبر: 2949
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أُوتِيكُمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا أَمْنَعُكُمُوهُ إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14792)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فرض الخمس 7 (3117)، مسند احمد (2/ 314، 482) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2949  
´امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2949]
فوائد ومسائل:
نبی کریم ﷺ پوری امت اسلامیہ بلکہ بنی نوع انسان کے سید اور سردار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے خزانچی باور کرا رہے ہیں۔
تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے وسائل حکمرانوں کی ملکیت نہیں ہوتے۔
ان کے خرچ کرنے میں وہ خود مختار نہیں ہوتے۔
بلکہ تمام شرکاء یعن تمام بندوں کا ان میں حق ہوتا ہے۔
اور سب کو اس کے مطابق ان سے مستفید ہونے کا برابر موقع ملنا چاہیے۔
بلکہ جو نادار اور محتاج ہوں۔
ان کو زیادہ ملنا چاہیے۔
لیکن خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت میں مسلمانوں کے وسائل کے استعمال میں حکمران زیادہ سے زیادہ خود مختار ہوتے گئے اور خزانے کو اپنے لئے شیرمادر سمجھنے لگے۔
اور جس کسی کو کچھ دیتے تو استحقاق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے ساتھ وفاداری وغیرہ کی وجہ سے دیتے، یہ خیانت کے مترادف ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2949