سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
15. باب فِي أَرْزَاقِ الذُّرِّيَّةِ
باب: مسلمانوں کی اولاد کو وظیفہ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2954
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: میں مسلمانوں سے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں (بس) جو مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ مال اس کے گھر والوں کا حق ہے اور جو قرض چھوڑ جائے یا عیال، تو وہ (قرض کی ادائیگی اور عیال کی پرورش) میرے ذمہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (45)، والصدقات 13 (2416)، (تحفة الأشراف: 2605)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة 13 (867)، سنن النسائی/العیدین 21 (1579)، والجنائز 67 (1964)، مسند احمد (3/371) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2416  
´جو قرض یا بےسہارا اولاد چھوڑ جائے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمے ہیں۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کے بال بچوں کا خرچ مجھ پر ہے، اور ان کا معاملہ میرے سپرد ہے، اور میں مومنوں کے زیادہ قریب ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2416]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (ضیاعاً)
سےمراد وہ افراد ہیں جنھیں اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً:
چھوٹے بچے، بوڑھے اورمعذور افراد جواپنی روزی کا بندوبست نہیں کرسکتے۔

(2)
اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست ہوتی ہے جس میں غریب اورنادار افراد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

(3)
نبی ﷺ کا امت سے جو تعلق ہے وہ دوسرے تمام تعلقات سے زیادہ قوی، اہم اورعظیم ہے۔
جس طرح امت کے ہرفرد پر نبیﷺ سےمحبت، آپ کا احترام اورآپ کی اطاعت فرض ہے اسی طرح نبی ﷺ بھی امت کے ہرفرد کا خیال رکھتے تھے۔
اب یہ فرض مسلمان حکمرانوں پرعائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی ضروریات اورمنافع پرعوام خصوصاً مستحق افراد کےفائدے اورضروریات کوترجیح دیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2416