سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
20. باب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2979
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم کیا کرتے تھے، مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3185) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو غالباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2881  
´(مال غنیمت میں سے) خمس کی تقسیم کا بیان۔`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور خیبر کے خمس مال میں سے جو حصہ آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا تھا اس کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے کہا: آپ نے ہمارے بھائی بنی ہاشم اور بنی مطلب کو تو دے دیا، جب کہ ہماری اور بنی مطلب کی قرابت بنی ہاشم سے یکساں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2881]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
مال غنیمت کے پانچ حصے مجاہدین میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔
ایک حصہ بیت المال کا ہوتا ہے۔
بیت المال کا یہ حصہ (خمس)
جہاں مفاد عامہ کے معاملات پر خرچ کیا جاتا ہے۔
وہاں اس میں سے ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا ہے جنھیں زکوۃ وصدقات لینا حرام ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ﴾  (الانفال 41/8)
 جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ اللہ کا رسول کا (رسول کے)
قرابت داروں کا یتیموں کا مسکینوں کااور مسافروں کا ہے۔

(2)
ہاشم مطلب عبد شمس اور نوفل سب عبد مناف کے بیٹے تھے۔
لیکن رسول اللہﷺ کے قرابت داروں کا حصہ صرف ہاشم اور مطلب کی اولاد کو ملتا ہے۔
انھی پر زکاۃ حرام ہے۔
عبد شمس اور نوفل کی اولاد اس میں شامل نہیں۔

(3)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نوفل کی اولاد میں سے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عبد شمس کی اولاد میں سے تھے۔
انھیں خمس میں سے حصہ نہیں ملا۔
بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ایک ہونے کی مختلف انداز سے وضاحت کی گئی ہے۔
زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنو مطلب نے اسلام سے پہلے بھی بنو ہاشم کا ساتھ دیا تھا اور شعب ابی طالب میں میں بنو ہاشم کے ساتھ رہے اور تکلیفیں برداشت کیں۔
جب کہ بنو نوفل اور بنو عبد شمس نے بائیکاٹ کرنے والوں کا ساتھ دیا اس لیے ان کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا چنانچہ خمس کے استحقاق میں بھی بنو ہاشم اور بنو مطلب کو برابر رکھا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2881   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 524  
´صدقات کی تقسیم کا بیان`
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے بنو عبدالمطلب کو خیبر کے خمس میں حصہ عنایت فرمایا ہے اور ہمیں نظرانداز فرمایا حالانکہ ہم اور وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم رشتہ کے اعتبار سے) ایک ہی مرتبہ کے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنو عبدالمطلب اور بنو ہاشم ایک ہی چیز ہیں۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 524]
لغوی تشریح 524:
مِن خُمُسِ خَیبَر خمس میں خا اور میم دونوں پر ضمہ ہے۔ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے کل اموال کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے لیا جانے والا مال خمس کہلاتا ہے۔ ٘وَنَحنُ وَھُم سے یہاں بنو المطلب مراد ہیں۔ ٘بِمَنزِلَۃٍ وَّاحِدَۃٍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہیں۔ یہ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق بنو عبد شمس بن عبدِمناف سے تھا، اور حضرت جبیر کا بنو نوفل بن عبدمناف سے تھا اس طرح دونوں ہاشم بن عبدمناف کے بھائی بنتے ہیں جسطرح مطلب بن عبدمناف۔ اس طرح یہ تینوں عبدشمس، نوفل اور مطلب، ہاشم کے ساتھ قرابتداری میں برابر ہیں۔ تو پھر جب قرابتداری کی بنا پر اگر مطلب کی اولاد استحقاق رکھتی ہے تو عبدشمس اور نوفل کی اولاد بھی استحقاق رکھتی ہے۔
أِنَّمَا بَنُو المُطَّلِبِ وَبَنُوھَاشِمِ شَیئٌ وَّاحِدٌ بنو مطلب اور بنو ھاشم ایک ہی چیز ہیں، اس لیے کہ جاہلیت اور عہدِاسلام میں ان کے مابین باہمی موالاۃ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے جبکہ غیروں کے ساتھ ایسا تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ قرابتداروں کو دیے جانے والے حصے میں شریک ہیں، بخلاف دوسروں کے کہ وہ شامل نہیں ہیں، اگرچہ نسب میں یہ سب برابر ہیں۔ مصنف نے اس حدیث کو اس باب میں اس لیے بیان کیا ہے کہ بنومطلب بھی بنو ھاشم کیطرح زکاۃ لینے کی حرمت میں برابر کے شریک ہیں، یعنی دونوں کے لیے زکاۃ لینا حرام ہے۔

فائدہ 524:
حضرت جبیر بن مطعم اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا ہم اور بنو مطلب برابر ہیں کہنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جیسی وفاداری اور اطاعت گزاری بنومطلب کر رہے ہیں ویسی ہم بھی کر رہے ہیں۔ فرمانبرداری میں یکساں ہیں۔ دوسرا یہ کہ قرابتداری کے اعتبار سے بھی ہم میں اور ان میں زیادہ تفاوت نہیں، جتنا کچھ استحقاق قرابت انہیں آپ سے حاصل ہے اتنا ہی ہمیں بھی حاصل ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنو عبدشمس میں سے اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوفل کی اولاد میں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہاشم کی اولاد سے ہیں۔ ہاشم، مطلب، نوفل اور عبدشمس یہ چاروں عبدِمناف کے بیٹے تھے، اس طرح جبیر، عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم وغیرہ کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی درجے کا ہے۔ حضرت جبیر و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے سوال کا بھی یہی مطلب تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہے نسب میں بنو عبدشمس اور بنو نوفل، بنومطلب کے برابر ہیں لیکن بنومطلب کی بنو ھاشم کیساتھ باہمی موالاۃ اسلام سے قبل دورِ جاھلیت میں بھی رہی ہے، بنو عبدشمس اور بنو نوفل کے برعکس کہ ان کے بنو ھاشم سے جاہلیت میں ایسے تعلقات نہیں رہے۔ اس لحاظ سے بنومطلب میرے (بنو ھاشم کے) زیادہ قریب ہیں۔ اس قربت کی بنا پر انہیں خمس میں سے دیا گیا ہے اور ان پر زکاۃ حرام ہے۔ اور بنو عبدشمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے نہیں دیا گیا اور نہ ان پر زکاۃ حرام ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 524   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2978  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں ۲؎ جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2978]
فوائد ومسائل:

اس روایت کا آخری حصہ (وکان ابو بکر۔
۔
۔
)
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھیں اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔
۔
۔
۔
) حضرت جبیر کے قول کا حصہ ہے۔
لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ امام زہری کا قول ہے۔
جو غلطی سے حضرت جبیر کے قول کے ساتھ درج ہو گیا ہے۔
غالباً اسی لئے امام بخای نے اپنے صحیح میں یہ حصہ ذکر نہیں کیا۔
(فتح الباري،کتاب فرض الخمس، باب و من الدلیل علی أن الخمس للإمام) فتح الباری کی عبارت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔
کہ ابو دائود کا جو نسخہ حافظ ابن حجر کے سامنے تھا، اس میں اس حصے کے درمیان (ما كان النبيُّ صلي الله عليه وسلم يُعطِيهِم) جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عطا کرتے تھے۔
موجود نہ تھے۔
البتہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔
کہ ذیلعی نے اس آخری حصے کے مدرج ہونے کی وضاحت کی ہے۔
اور یونس عن لیث ہی کی سند سے اس کو زیادہ تفصیل سے روایت کیاہے۔
(فتح الباری ایضاً) (ما كان النبي ....الخ) کے الفاظ کے بغیر امام زہری کے قو ل کا مفہوم یہ بنتا ہے۔
کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ ذوی القربیٰ کو خمس کا حصہ نہیں دیتے تھے۔
اس حصے کے ساتھ اصل مفہوم یہ بنتا ہے۔
کہ زوی القربیٰ کو مجموعی طور پر اتنا نہ دیتے کہ جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرماتے تھے۔
(اگلی حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔
)
دوسری احادیث سے اس کی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔
سنن نسائی میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ وضاحت آتی ہے کہ ان کے (اوران سے پہلے حضرت ابو بکر خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے) نزدیک خمس کے اس حصے کے اخراجات کی مدیں بیوگان کی شادی، بڑے خاندان والے کی خبر گیری ذوی القربیٰ میں سے مقروضوں کے قرض کی ادایئگی تھیں۔
(فتح الباري، أیضا، سنن نسائی، أول کتاب قسم الفیء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً زیادہ خوشحالی کی وجہ سے غالبا ً مجموعی طور پر زوی القربیٰ کی ان مدات کےلئے خرچ ہونے والی رقم کی مقدار کم ہوگئی تھی۔
اس لئے اب خمس میں سے زوی القربیٰ پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت کم اور عام بیوگان یتامیٰ اور مستحقین پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت زیادہ ہوگئی تھی۔
اگلی احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔
اور امام زہری نے اپنے قول میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔


آیت کریمہ میں مذکور ذوی القربیٰ کے لفظ کی تشریح ازروئے سنت ان دو خاندانوں سے کی گئی۔
جو اقتصادی معاشرتی معاملات میں ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے ہے۔
اور حضرت جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بنونوفل سے۔
یہ دونوں خاندان بنوہاشم کے ساتھ اس طرح کا عملی اشتراک نہیں رکھتے تھے۔
جیسا بنوہاشم اور بنومطلب کے درمیان تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2978