سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
20. باب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2985
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَا: لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا وَاللَّهِ لَا نَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ"، فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نُوَافِقَ صَلَاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ثُمَّ قَالَ:" أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ"، ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ قَلِيلًا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لَا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لَا تَعْجَلَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرِنَا ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَقَالَ لَنَا:" إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ، فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَالَ: يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَحْمِيَةَ: أَنْكِحْ الْفَضْلَ فَأَنْكَحَهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا"، لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ.
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبر دی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شادی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول! ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئیے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ (یعنی حق محنت) ہو گا وہ ہم پائیں گے۔ عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے ۱؎۔ اس پر ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف حاصل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور کہنے لگے: میں ابوالحسن سردار ہوں (جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آ جائیں جس کے لیے تم نے انہیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے۔ عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں گئے، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہو گئی ہم نے سب کے ساتھ نماز جماعت سے پڑھی، نماز پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے دروازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور (پیار سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: بولو بولو، جو دل میں لیے ہو، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لیے اشارہ کیا (تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کو ہوا) آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیں حکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھڑی تک چپ رہے، پھر نگاہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پردے کی آڑ سے (ام المؤمنین) زینب رضی اللہ عنہا اشارہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو (گھبراؤ نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ چنانچہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو، تو نوفل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محمیہ بن جزء کو میرے پاس بلاؤ، محمیۃ بن جزء رضی اللہ عنہ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا (وہ آئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم فضل کا (اپنی بیٹی سے) نکاح کر دو، تو انہوں نے ان کا نکاح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) کہا: جاؤ مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کر دو۔ (ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حارث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الزکاة 51 (1072)، سنن النسائی/الزکاة 95 (2610)، (تحفة الأشراف: 9737)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/166) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2985  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبر دی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شادی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول! ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئیے جو دوسرے عم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2985]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صدقات کا عامل نہ بنایا۔
البتہ خمس میں سے ان کی شادیوں کےلئے خرچ فرمایا۔
اسی طریقے پر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک عمل رہا۔


اس مقصد کےلئے بیت المال سے مادی تعاون دینا جائز ہے۔
جیسے کہ اہل بیت کےلئے خمس سے لینا جائز تھا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب مصلحت اسے خرچ فرمایا کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2985