سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
25. باب مَا جَاءَ فِي خَبَرِ مَكَّةَ
باب: فتح مکہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3021
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ، فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرِ فَلَوْ جَعَلْتَ لَهُ شَيْئًا، قَالَ:" نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ"..
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ مرالظہران ۲؎ میں مسلمان ہو گئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کر دیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کر دیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے وہ بھی مامون ہے (ہم اسے نہیں ماریں گے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5854) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مکہ ۸ ہجری میں فتح ہوا۔
۲؎: مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن م الجملة الأخيرة أبي هريرة
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3021  
´فتح مکہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ مرالظہران ۲؎ میں مسلمان ہو گئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کر دیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کر دیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3021]
فوائد ومسائل:
ذوالقعدہ 6 ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔
کہ دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے۔
اس عرصے میں لوگ ہرطرح سے امن میں رہیں گے۔
اور کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔
مگر بنوبکر (حلیف قریش) نے بنو خزاعہ (حلیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کیا۔
جس میں قریشیوں نے در پردہ اپنے حلیفوں کی بھر پور مدد کی اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ کو قتل کیا گیا۔
اور کئی آدمی تو حرم کے اندرقتل کئے گئے۔
اس طرح یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔
تب مسلمانوں نے بہت اچھی حکمت عملی اپنا کر مکہ فتح کرلیا۔
اور پھر پورے جزیرۃ العرب پر اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔
یہ واقعہ 8 ہجری کا ہے۔
(جس کی تفصیل الرحیق المختوم علامہ صفی الرحمٰن مبارک پوری اور سیرت کی دیگر کتب میں دقت نظر سے مطالعہ کا لائق ہے۔
)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3021