سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
29. باب فِي إِيقَافِ أَرْضِ السَّوَادِ وَأَرْضِ الْعَنْوَةِ
باب: کافروں سے جنگ میں ہاتھ آ نے والی نیز سواد نامی علاقے کی زمینوں کو مصالح عامہ کے لیے روک رکھنے اور اسے غنیمت میں تقسیم نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3035
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنَعَتْ الْعِرَاقُ قَفِيزَهَا وَدِرْهَمَهَا وَمَنَعَتْ الشَّامُ مُدْيَهَا وَدِينَارَهَا وَمَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّهَا وَدِينَارَهَا، ثُمَّ عُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ"، قَالَهَا زُهَيْرٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ لَحْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَدَمُهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک وقت آئے گا) جب عراق اپنے پیمانے اور روپے روک دے گا اور شام اپنے مدوں اور اشرفیوں کو روک دے گا اور مصر اپنے اردبوں ۲؎ اور اشرفیوں کو روک دے گا ۳؎ پھر (ایک وقت آئے گا جب) تم ویسے ہی ہو جاؤ گے جیسے شروع میں تھے ۴؎، (احمد بن یونس کہتے ہیں:) زہیر نے یہ بات (زور دینے کے لیے) تین بار کہی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گوشت و خون (یعنی ان کی ذات) نے اس کی گواہی دی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الفتن وأشراط الساعة 8 (2896)، (تحفة الأشراف: 12652)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/262)، (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سواد سے مراد عراق کے دیہات کی وہ زمینیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں حاصل کیا، یہ اپنے کھجور کے باغات اور زراعت کی ہریالی کی وجہ سے سواد کے نام سے مشہور ہے، اور اس کی لمبائی موصل سے عبدان تک اور چوڑائی قادسیہ سے حلوان تک ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ مفتوحہ زمینیں مال غنیمت میں داخل نہیں ہیں، امام کو مصلحت کے اعتبار سے اس کے تصرف کے بارے میں اختیار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تقسیم بھی کیا ہے، اور چھوڑا بھی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے تقسیم نہ کر کے اس کو جوں کا توں رکھا اور اس پر مستقل خراج (محصول) مقرر کر دیا، جو فوجیوں کے استعمال میں آئے، یہ اس زمین (ارض سواد) کے وقف کا معنی ہے، اس کا معنی اصطلاحی وقف نہیں ہے، جس کی ملکیت منتقل نہیں ہو سکتی بلکہ اس زمین کا بیچنا جائز ہے، جس پر امت کا عمل ہے، اور اس بات پر اجماع ہے کہ یہ وراثت میں منتقل ہو گی، اور وقف میں وراثت نہیں ہے، امام احمد نے یہ تنصیص فرمائی ہے کہ اس (ارض سواد) کو مہر میں دیا جا سکتا ہے، اور وقف کو مہر میں دینا جائز نہیں ہے، اور اس واسطے بھی کہ وقف کی بیع ممنوع ہے، ایسے ہی اس کی نقل ملکیت بھی ممنوع ہے، اس لیے کہ جن لوگوں کے لیے وقف ہوتاہے، وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے، اور فوجیوں کا حق زمین (ارض سواد) کے خراج (محصول) میں ہے، تو جس نے اس زمین کو خرید لیا وہ اس کے خراج کا مستحق ہو گیا، جیسے کہ کوئی چیز بائع کے یہاں ہوتی ہے (تو جب مشتری کے یہاں منتقل ہوتی ہے، تو اس کا نفع بھی منتقل ہو جاتا ہے)، تو اس بیع سے کسی مسلمان کا حق باطل نہیں ہوتا، جیسے کہ میراث، ہبہ اور صدقہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (انتہی مختصراً) مسلمانوں نے جن علاقوں کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے، امام ابن منذر کہتے ہیں کہ امام شافعی اس بات کی طرف گئے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان مجاہدین کو راضی کرلیا تھا جنہوں نے علاقہ سواد کو فتح کیا تھا اور مالِ غنیمت میں اس کے حق دار تھے، اور طاقت سے حاصل کی گئی زمین کا حکم یہ ہے کہ وہ تقسیم کی جائے گی، جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکی زمین کو تقسیم فرمایا تھا، امام مالک کہتے ہیں کہ مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والی یہ زمینیں تقسیم نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وقف رہیں گی، اور اس کے محصول سے فوجیوں کے وظائف، پل بنانا اور دوسرے کار خیر کیے جائیں گے، ہاں اگر امام کبھی یہ دیکھے کہ مصلحت کا تقاضا اس کا تقسیم کر دینا ہے تو وہ اس زمین کو تقسیم کر سکتا ہے، ابوعبید نے کتاب الأموال میں حارثہ بن مضرب سے نقل کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سواد کی زمین کو تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس سلسلے میں مشورہ کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اسے مسلمانوں کے مفاد عامہ کے لیے چھوڑ دیجئے، تو آپ نے اسے مجاہدین میں تقسیم نہ کر کے اس کو ایسے ہی چھوڑ دیا، اور عبداللہ بن ابی قیس سے یہ نقل کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ارض سواد کی تقسیم کا ارادہ فرمایا تو معاذ رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اسے تقسیم کر دیں گے تو اس کی بڑی آمدنی لوگوں کے پاس چلی جائے گی اور لوگوں کے فوت ہو جانے کے بعد وہ ایک مرد یا ایک عورت کے ہاتھ میں چلی جائے گی، اور دوسرے ضرورت مند مسلمان آئیں گے تو انہیں کچھ نہ ملے گا، تو آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کیجئے جس سے پہلے اور بعد کے سارے مسلمان فائدہ اٹھائیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کی تقسیم کو مؤخر کر دیا،اور غنیمت پانے والے مجاہدین اور بعد کے آنے والے لوگوں کی مصلحت کے لیے اس پر محصول لگا دیا۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داود ۸/۱۹۴، ۱۹۵)
۲؎: اردب ایک پیمانہ کانام ہے۔
۳؎: یعنی ان ممالک کی دولت پر تم قابض ہو جاؤ گے۔
۴؎: یعنی یہ ساری دولت تم سے چھِن جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3035  
´کافروں سے جنگ میں ہاتھ آ نے والی نیز سواد نامی علاقے کی زمینوں کو مصالح عامہ کے لیے روک رکھنے اور اسے غنیمت میں تقسیم نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک وقت آئے گا) جب عراق اپنے پیمانے اور روپے روک دے گا اور شام اپنے مدوں اور اشرفیوں کو روک دے گا اور مصر اپنے اردبوں ۲؎ اور اشرفیوں کو روک دے گا ۳؎ پھر (ایک وقت آئے گا جب) تم ویسے ہی ہو جاؤ گے جیسے شروع میں تھے ۴؎، (احمد بن یونس کہتے ہیں:) زہیر نے یہ بات (زور دینے کے لیے) تین بار کہی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گوشت و خون (یعنی ان کی ذات) نے اس کی گواہی دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3035]
فوائد ومسائل:

(قفیز) اہل عراق کا غلہ بھرنے کا پیمانہ ہے جس میں بارہ صاع آتے ہیں۔
(مدی) میم کی پیش اور دال ساکن اس کے بعد ی اہل شام کا پیمانہ ہے۔
جس میں ساڑھے بایئس صاع آتے ہیں۔
(اردب) (ہمزہ کی زیر ساکن دال پر زبر اور با مشدد ہے۔
)
اہل مصر کا پیمانہ ہے جس میں چوبیس صاع آتے ہیں۔


یہ حدیث علامات نبوت میں سے ہے جس میں پہلے تو یہ خوش خبری ہے۔
کہ یہ علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں گے۔
اور ان سے غنائم اور خراج حاصل ہوں گے۔


اور پھر ایک وقت کے بعد وہ اس کی ادایئگی روک دیں گے یا تو مطلقا انکار کردیں گے۔
یا مسلمان ہوجایئں گے۔
اور خراج ساقط ہوجائے گا۔
یا مرکز اسلام سے ٹوٹ کر سب الگ الگ اور مستقل ہوجایئں گے۔
جیساکہ آج کل ہے۔


پھر تم ادھر ہی لوٹ جائو گے جہاں سے تم نے ابتداء کی تھی۔
یعنی الگ الگ آزاد اور ایک دوسرے سےجدا ملک بن جائو گے۔
جیسے کہ ابتدائے اسلام میں تھے۔


امام ابودائود کا استدلال یہ ہے کہ مفتوحہ زمین لوگوں کی ذاتی ملکیت کی بجائے یا مجاہدین کے درمیان تقیسم کرنے کی بجائے بیت المال کی نگرانی میں رہنی چاہیے۔
تاکہ ان کی آمدنی سے مملکت اسلامی کے رفاہی امور اور مجاہدین وغیرہ کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں سوا د عراق کی بابت یہی فیصلہ کیا تھا اور اسے مجاہدین میں تقسیم کرنے کی بجائے اسلامی مملکت کی تحویل میں رکھا تاکہ اس کی آمدنی کو حسب ضرورت و مصلحت استعمال کیا جا سکے۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز کو تفصیلی مشاورت کے بعد بالاجماع قبول کیا تھا۔
اس لئے یہ حجت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3035