سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
31. باب فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنَ الْمَجُوسِ
باب: مجوس سے جزیہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3044
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ قُشَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بَجَالَةَ بْنِ عَبْدَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَسْبَذِيِّينَ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ وَهُمْ مَجُوسُ أَهْلِ هَجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَكَثَ عِنْدَهُ، ثُمَّ خَرَجَ فَسَأَلْتُهُ مَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: شَرٌّ قُلْتُ: مَهْ قَالَ: الْإِسْلَامُ أَوِ الْقَتْلُ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قَبِلَ مِنْهُمُ الْجِزْيَةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَتَرَكُوا مَا سَمِعْتُ أَنَا مِنْ الْأَسْبَذِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بحرین کے رہنے والے اسبذیوں ۱؎ (ہجر کے مجوسیوں) میں کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر نکلا تو میں نے اس سے پوچھا: اللہ اور اس کے رسول نے تم سب کے متعلق کیا فیصلہ کیا؟ وہ کہنے لگا: برا فیصلہ کیا، میں نے کہا: چپ (ایسی بات کہتا ہے) اس پر اس نے کہا: فیصلہ کیا ہے کہ یا تو اسلام لاؤ یا قتل ہو جاؤ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ لینا قبول کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تو لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کیا اور اسبذی سے جو میں نے سنا تھا اسے چھوڑ دیا (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مقابل میں کافر اسبذی کے قول کا کیا اعتبار)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5371، 9723، 15613) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی قشیر مجہول الحال ہیں)

وضاحت: ۱؎: اسبذی منسوب ہے «اسپ» کی طرف، «اسپ» فارسی میں گھوڑے کو کہتے ہیں، ممکن ہے وہ یا اس کے باپ دادا گھوڑے کو پوجتے رہے ہوں اسی وجہ سے انہیں اسبذی کہا جاتا ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3044  
´مجوس سے جزیہ لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بحرین کے رہنے والے اسبذیوں ۱؎ (ہجر کے مجوسیوں) میں کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر نکلا تو میں نے اس سے پوچھا: اللہ اور اس کے رسول نے تم سب کے متعلق کیا فیصلہ کیا؟ وہ کہنے لگا: برا فیصلہ کیا، میں نے کہا: چپ (ایسی بات کہتا ہے) اس پر اس نے کہا: فیصلہ کیا ہے کہ یا تو اسلام لاؤ یا قتل ہو جاؤ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ لینا قبول کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تو لوگوں نے عبدالر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3044]
فوائد ومسائل:
یہ جزیہ تمام قسم کے غیرمسلم مشرکوں پر لوگوں ہوتا تھا۔
چونکہ یہ احکام فتح مکہ کے بعد نازل ہوئے تھے۔
اور اس عرصہ میں تمام اہل عرب دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔
اس لئے ان سے جزیہ لینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔
تفصیل کےلے دیکھئے۔
(زاد المعاد، فصل في ھدیه في أخذ الجذیة)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3044