سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ -- کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
36. باب فِي إِقْطَاعِ الأَرَضِينَ
باب: زمین جاگیر میں دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3061
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ وَهِيَ مِنْ نَاحِيَةِ الْفُرْعِ فَتِلْكَ الْمَعَادِنُ لَا يُؤْخَذُ مِنْهَا إِلَّا الزَّكَاةُ إِلَى الْيَوْمِ.
ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو فرع ۱؎ کی طرف کے قبلیہ ۲؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جاتا رہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10777)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 3 (8)، مسند احمد (1/306) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ روایت مرسل ہے، اس میں مذکور جاگیر دینے والے واقعہ کی متابعت اور شواہد تو موجود ہیں مگر زکاة والے معاملہ کے متابعات و شواہد نہیں ہیں)

وضاحت: ۱؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔
۲؎: قبلیہ ایک گاؤں ہے جو فرع کے متعلقات میں سے ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 504  
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)`
سیدنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل (جگہ کا نام) میں واقع کانوں سے زکوٰۃ وصول کی۔ (ابوداؤد) [بلوغ المرام/حدیث: 504]
لغوی تشریح 504:
مَعَادِن معدن کی جمع ہے۔ مَعدِنٌ میں دال کے نیچے کسرہ ہے۔ اسے اردو میں کان کہتے ہیں، یعنی زیر زمین وہ حصہ جہاں اللہ تعالیٰ نے سونا، چاندی اور جواہرات وغیرہ پیدا فرماے ہوں۔
اَلْقَبَلِیَّۃِ قاف اور با پر فتحہ ہے۔ قبل کی طرف نسبت ہے جو فُرْع کے نواح میں ایک جگہ کا نام ہے۔ اور فُرْع میں فا پر ضمہ اور را ساکن ہے۔ اور ایک قول کے مطابق دونوں پر ضمہ ہے۔ مدینے کے بالائی حصے میں ساحل سمندر کی جانب واقع ہے اور مکہ و مدینہ کے درمیان، مدینہ سے آٹھ برد (تقریباً 96 میل) کے فاصلے پر ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ جگہ چار دن کی مسافت پر واقع ہے۔ اس میں بہت سی مساجد اور بستیاں ہیں۔ معدن اور رکاز (کان اور دفینہ) دونوں لغوی اعتبار سے مختلف ہیں اور اسی طرح حکماً اور شرعاً بھی مختلف ہیں۔

فائدہ 504:
مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے حسن قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ الله اس کی بابت لکھتے ہیں کہ حضرت بلال بن حارث کو معادن (کانوں) کا دیا جانا ثابت ہے مگر اس میں زکاۃ لینے کا جو ذکر ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ دیکھیے: [ارواء الغليل: 312، 311/3 حديث: 830]
بنابریں اس کی بابت راجح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ کانوں سے نکلنے والی چیزوں میں زکاۃ نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت کچھ ثابت نہیں، البتہ اس کی آمدنی پر بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائے اور سال بھی گزر جائے۔ تو زکاۃ ہے خمس نہیں۔ «والله اعلم»
راوئ حدیث حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزینہ قبیلے سے ہونے کی وجہ سے مزنی کہلائے۔ کنیت ابوعبدالرحمٰن تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 5 ہجری میں مزینہ قبیلے کے وفد کے ساتھ ان کے نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے۔ مدینہ کے پیچھے سکونت اختیار کی۔ بھر بصرہ میں منتقل ہوگے تھے۔ فتح مکہ کے روز انہوں نے مزینہ قبیلے کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا۔ 80 برس کی عمر میں 60 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 504   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3061  
´زمین جاگیر میں دینے کا بیان۔`
ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو فرع ۱؎ کی طرف کے قبلیہ ۲؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جاتا رہا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3061]
فوائد ومسائل:
حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاون (کانوں) کا دیا جانا ثابت ہے۔
جیسے کہ آگے آرہا ہے۔
مگر اس میں ذکواۃ لینے کا جو ذکر ہے۔
اس کی بابت شیخ البانی فرماتے ہیں۔
کہ وہ صحیح نہیں ہے۔
(إرواالغلیل:311/1، 312، حدیث: 830)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3061