سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
17. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ حُسْنِ الظَّنِّ بِاللَّهِ عِنْدَ الْمَوْتِ
باب: مستحب ہے کہ انسان موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھے۔
حدیث نمبر: 3113
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ: قَالَ:" لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ، إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ سے اچھی امید رکھتا ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا 19 (2877)، سنن ابن ماجہ/الزھد 14 (4167)، (تحفة الأشراف: 2295)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/315، 325، 330، 334، 390) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کہ اللہ اس کی غلطیوں کو معاف کرے گا اور اسے اپنی رحمت سے نوازے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4167  
´توکل اور یقین کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان (حسن ظن) رکھتا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4167]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو اللہ کی رحمت کی امید اور اس کی ناراضی کا خوف، دونوں کی ضرورت ہے۔
امید اسے نیکیوں کی رغبت دلاتی ہے اور خوف اسے گناہ سے باز رکھتا ہے۔

(2)
زندگی میں امید پر خوف کا غلبہ رہنا چاہیے لیکن وفات کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔

(3)
اللہ سے حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ امید رکھے کہ اس کی توفیق سےزندگی میں جو نیک کام ہوئے ہیں اللہ تعالی انھیں قبول فرمائے گا اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا۔

(4)
امید کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی عادت ہو اور نیکیوں کی طرف رغبت نہ ہو۔
جب نصیحت کی جائے تو کہہ دے:
اللہ بہت رحم کرنے والا ہے۔
یہ امید کا غلط تصور ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4167   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3113  
´مستحب ہے کہ انسان موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ سے اچھی امید رکھتا ہو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3113]
فوائد ومسائل:
عمدہ گمان ظاہر بات ہے وہی کر سکتا ہے۔
جس نے مومنانہ اور صالحانہ زندگی گزاری ہو ایک غیر مومنانہ اور غیر صالحانہ زندگی گزارنے والا کا حسن ظن ایسا ہی ہوگا۔
جیسے تخم حنظل بوکر شیریں اور خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھنا اس لئے مسئلہ تو یہی ہے انسان اپنے اللہ کے ساتھ ہمیشہ ہی عمدہ اور بہترین گمان رکھنا چاہیے۔
کہ وہ اس کے ساتھ ظاہری باطنی اوردنیاوآخرت کے تمام امور میں اچھا معاملہ فرمائے گا۔
مگرشرط یہ ہے کہ بتقاضائے شریعت اس کی واقعی بنیاد بھی ہو یعنی ایمان۔
تقویٰ اورعمل صالح سے مزین ہو۔
اس سے اعراض کرکے یا عناد کا رویہ رکھ کر اللہ تعالیٰ پر تمنایئں باندھنا سراسر دھوکا ہے۔
لیکن پھر بھی اللہ رب العالمین ہے۔
اس کے اپنے فیصلے ہیں۔
قرآن وسنت سے ہٹ کر کسی کے متعلق حتمی طور پرکچھ کہنا روا نہیں ہے بہرحال مومن کو امید اور خوف دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔
صحت وعافیت کے دنوں میں خوف کا پہلو کسی قدرغالب رہے تو اچھا ہے لیکن بوقت رحلت امید کا پہلو غالب رکھنا چاہیے۔
کہ وہ الرحمٰن الرحیم اپنے خاص فضل سے عفووستر کا معاملہ فرمائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3113