سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
23. باب فِي الْمَيِّتِ يُسَجَّى
باب: میت کو ڈھانپ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3120
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"سُجِّيَ فِي ثَوْبِ حِبَرَةٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (وفات کے بعد) یمنی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/اللباس 18(5814)، صحیح مسلم/الجنائز 14 (942)، (تحفة الأشراف: 17765)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/89، 269) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 431  
´میت کو غسل دینے سے پہلے دھاری دار چادر سے ڈھانپ دینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 431]
لغوی تشریح:
«سُجَّيَ» تسجیۃ (باب تفعيل) سے صیغہ مجہول ہے۔ ڈھانپنے کے معنی میں ہے۔
«بِبُرْدِ حِبَرَةِ» اس میں مضاف اور مضاف الیہ کی شکل بھی بنتی ہے اور موصوف صفت کی بھی۔ اور «بُرْد» کی باپر ضمہ اور راساکن ہے۔ چادر یا دھاری دار کپڑا۔
اور «حِبَرَة» میں حا پر فتحہ ہے۔ بیل بوٹے والی چادر۔ اور یہ ڈھانپنے کا عمل غسل سے پہلے تھا۔
فوائد و مسائل:
➊ میت کو غسل دینے سے پہلے دھاری دار چادر سے ڈھانپ دینا بھی جائز ہے۔
➋ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوئی ہے۔
➌ اس حدیث سے حیات النبی کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو گیا کہ اگر آپ نے وفات نہیں پائی تو آپ کے ساتھ وہ عمل کیوں کیا گیا جو فوت ہونے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی غسل اور تدفین و تجہیز وغیرہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 431   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 437  
´میت کو خواہ مرد ہو یا عورت تین کپڑوں میں کفن دینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحولیہ کے بنے ہوئے سوتی سفید رنگ کے تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، جس میں قمیص اور پگڑی نہیں تھی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 437]
لغوی تشریح:
«كُفٌنَ» تکفین سے ماخوذ ہے۔
«ثَلَاثَةَ اَثَّوَابٟ» تین کپڑوں یعنی ازار، چادر اور لفافے میں کفن دیا گیا۔
«بِيض» با کے نیچے کسرہ ہے اور یہ «اُبْيَض» کی جمع ہے۔
«سُحُو لِيَّةِ» سین اور حا دونوں پر ضمہ ہے۔ اور سین پر فتحہ اور حا پر ضمہ بھی منقول ہے۔ سحول کی طرف منسوب ہے جو یمن کا ایک قصبہ یا بستی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فتحہ کی صورت میں یہ قصار (دھوبی) کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ «سحل» سے مراد صاف کرنا ہے اور دھوبی کپڑے کو دھو کر صاف کرتا ہے۔ اس اعتبار سے «سحوليه» کے معنی «نقيه» (صفائی و طہارت اور پاکیزگی و نظافت) کے ہوں گے۔
«كُرْسُف» کاف اور سین دونوں پر ضمہ اور ان کے درمیان میں را ساکن ہے۔ اس سے مراد روئی ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو خواہ مرد ہو یا عورت تین کپڑوں میں کفن دینا چاہیے۔ عورتوں کو تین کپڑوں سے زائد کفن دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم ان کپڑوں میں نہ تو قیمص ہو اور نہ پگڑی۔ اور کفن میں سوتی کپڑا بہتر ہے۔
➋ تین کپڑوں سے مراد جمہور کے نزدیک تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے ہاں اس سے مراد کفنی، تہبند اور بڑی چادر ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 437   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1469  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا، جس میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگ دھاری دار چادر لائے تھے مگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں نہیں کفنایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1469]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
کفن کا سفید ہونا بہتر ہے۔
جیسے آگے حدیث (1473)
میں بھی آ رہا ہے۔

(2)
رنگدار یا دھاری دار کپڑے کا کفن بنانا بھی جائز ہے۔
اگر جائز نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نبی اکرمﷺ کے لئے ایسا کفن تیار نہ کرتے۔

(3)
رسول اللہﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔
اس سے معلوم ہواکہ مرد وعورت کفن کے کپڑوں میں برابر ہیں۔
عورت کےلئے کفن میں مرد سے زیادہ کپڑے استعمال کرنے کا جواز کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1469   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 996  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ۲؎ نہ ان میں قمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کر دیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 996]
اردو حاشہ:
1؎:
تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی،
تہ بند اور بڑی چادر ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے ((كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ بحرانية:
 الحلة،
 ثوبان،
 وقميصه الذي مات فيه)
)
 تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں،
اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث ((خَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ)) بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔

3؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے،
لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں،
وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے،
اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 996