سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
24. باب الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْمَيِّتِ
باب: قریب المرگ کے پاس قرآن پڑھنے کا مسئلہ۔
حدیث نمبر: 3121
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيٍّ الْمَرْوَزِيُّ، المعنى قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَءُوا يس عَلَى مَوْتَاكُمْ". وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلَاءِ.
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مردوں پر سورۃ، يس، پڑھو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الجنائز 4 (1448)، (تحفة الأشراف: 11479)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/26،27) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابو عثمان اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں)

وضاحت: ۱؎: یعنی مرنے کے قریب لوگوں پر۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف وهذا لفظ ابن العلاء
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 429  
´قریب المرگ انسان کے پاس یسین پڑھنا`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مرنے والوں کے قریب سورۃ «يس» پڑھا کرو . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 429]
لغوی تشریح:
«اِقْرَوُوا» ‏‏‏‏ امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: پڑھو، پڑھا کرو۔
«عَليٰ مَوْتَاكُمْ» ‏‏‏‏ جس کی موت کا وقت حاضر ہو رہا ہو۔
کہا گیا ہے کہ جس کی موت کا وقت قریب ہو اس کے پاس سورۃ یٰس پڑھنے کی بنا پر میت سے جان کنی کی تکلیف میں تخفیف کر دی جاتی ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے قریب المرگ شخص پر سورۃ یٰس پڑھنے کا رواج صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس کے بجائے یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ! اس کے لیے اس دشوار مرحلے کو آسان فرما دے۔

راوی حدیث:
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ
معقل میں میم پر فتحہ عین ساکن اور قاف کے نیچے کسرہ ہے۔ مزینہ قبیلے کے صحابی تھے۔ حدیبیہ سے پہلے اسلام قبول کیا۔ بیعت رضوان میں حاضر ہوئے۔ ان کی طرف بصرہ میں ایک نہر منسوب ہے جو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے کھودی تھی، اس لیے عربوں میں یہ مثل مشہور ہے:
«اذا جا نهر اله بطل نهر معقل»
جب اللہ کہ نہر (بارش) جاری ہو جاتی ہے تو حضرت معقل رضی اللہ عنہ کی نہر کی کوئی حیثیث نہیں رہتی۔ آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخر دور میں 60 ہجری میں فوت ہوئے۔ اور بعض کے نزدیک یزید کے دور میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 429   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1448  
´جانکنی کے وقت مریض کے پاس کیا دعا پڑھی جائے؟`
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورۃ يس پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1448]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت ضعیف ہے۔
اس لئے قریب المرگ شخص پر سورۃ یسٰ پڑھنے کا رواج صحیح نہیں ہے اس کی بجائے اس کے لئے دعا کی جائے۔
کہ یا اللہ ا س کے لئے اس دشوار مرحلہ کو آسان فرمادے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1448   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3121  
´قریب المرگ کے پاس قرآن پڑھنے کا مسئلہ۔`
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مردوں پر سورۃ، يس، پڑھو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3121]
فوائد ومسائل:
حدیث ضعیف ہے۔
(مذید دیکھئے احکام الجنائز شیخ البانی مسئلہ 15) اس لئے قریب المرگ شخص پرسورۃ یسٰ پڑھنے کا رواج صحیح نہیں ہے۔
اس کی بجائے اس کے لئے یہ دعا کی جائے کہ یا اللہ اس کےلئے اس مرحلہ سخت کو آسان فرما دے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3121   
  الشيخ غلام مصطفي ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود3121  
´قریب المرگ لوگوں پر سورہ یٰسٓ کی قرائت`
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ​
«اقرأوا على موتاكم يٰسين .»
اپنے قریب المرگ لوگوں پر سورہ یٰسٓ کی قرائت کرو۔ [مسند الامام احمد: ٥/٢٦، سنن ابي داؤد: ۳۱۲۱، السنن للنسائي: ۱۰۹۱٤، سنن ابن ماجه: ۱٤٤۸]
اس حدیث کو امام ابنِ حبان (۳۰۰۲) اور امام حاکم رحمہ اللہ «(اتحاف المهرة لابن حجر)» رحمۃ اللہ علیھما نے صحیح کہا ہے۔
یہ امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ کا تساہل ہے، جبکہ اس کی سند ضعیف ہے۔
اس کی سند میں ابوعثمان کے والد، جو کہ مجہول ہیں، ان کی زیادت موجود ہے۔
یہ «المزيد فى متصل الاسانيد» ہے۔ ابوعثمان نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی، لہٰذا سند ضعیف ہوئی۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ​
«أراد به من حضرته المنية لا أن الميت يقرأ عليه، وكذلك قوله صلى الله عليه و سلم: لقنوا موتاكم: لا إله إلا الله .»
اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب الموت شخص مراد لیا ہے، نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو (یہ بھی قریب المرگ کے لیے ہے، میت کے لیے نہیں)۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے۔ [الروح لابن القيم: ص۱۱]

7 فائدہ نمبر ۱: 7 ​
«قال صفوان (بن عمرو): حدثني المشيخة أنهم حضروا غضيف بن الحارث الثمالي، قال: فكان المشيخة يقولون: إذا قرأت عند الميت (يعني يٰسٓ) خفف عنه بها .»
صفوان بن عمرو نے کہا: مجھے بوڑھوں نے خبردی کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس حاضر ہوئے، وہ بوڑھے کہتے تھے کہ جب تو میت کے پاس سورہ یٰس کی قرائت کرے گا تو اس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہو گی۔ [مسندلامام احمد: ٤/١٠٥]
یہ بوڑھے نامعلوم ہیں لہٰذا سند مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ٣/١٨٤) کا اس سند کو حسن قرار دینا صحیح نہیں۔

7 فائدہ نمبر ۲: 7
سیدنا ابوالدرداء اور سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ​
«ما من ميت، فيقرأعنده يٰسٓ إلا هون الله عزوجل عليه .»
جو میت مرتی ہے اور اس پر سورہ یٰس کی قرائت کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔ [مسند الفردوس: ٦۰۹۹، التلخيص الحبير لابن حجر: ٢/١٠٤]
اس کی سندموضوع (من گھڑت) ہے۔
اس میں مروان بن سالم الغفاریمتروک ووضاع ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، حدیث/صفحہ نمبر: 0