سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
33. باب كَيْفَ غُسْلُ الْمَيِّتِ
باب: میت کو کیسے غسل دیا جائے؟
حدیث نمبر: 3147
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ الْغُسْلَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، يَغْسِلُ بِالسِّدْرِ مَرَّتَيْنِ، وَالثَّالِثَةَ بِالْمَاءِ وَالْكَافُورِ.
قتادہ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھا تھا، وہ دوبار بیری کے پانی سے غسل دیتے اور تیسری بار کافور ملے ہوئے پانی سے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/85) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3147  
´میت کو کیسے غسل دیا جائے؟`
قتادہ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھا تھا، وہ دوبار بیری کے پانی سے غسل دیتے اور تیسری بار کافور ملے ہوئے پانی سے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3147]
فوائد ومسائل:
میت کوغسل دینے کا مسئلہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔
لہذا علما ء کو چاہیے کہ طلباء اور جوانوں کو اور گھروں میں عورتوں کو بھی سکھایئں۔
اور میت کو غسل دینا کوئی حقیر کام نہیں۔
بلکہ ایک مسلمان کی عظیم خدمت اور بڑے اجروثواب کا کام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3147